سینیٹ اطلاعات کمیٹی کا پی ٹی وی پر نفرت انگیز کلپس نشر کرنیکی تحقیقات کا حکم

اسلام آباد(سٹاف رپورٹر)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید کی زیرصدارت پارلیمنٹ لاجز میں منعقد ہوا۔

قائمہ کمیٹی برائے اطاعات ونشریات کے اجلاسوں میں وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کی عدم شرکت پر چیئرمین کمیٹی نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے نوٹس لیا اور کہا کہ کمیٹی کے 90 فیصد اجلاسوں میں وفاقی وزیر اطلاعات نہیں آتیں۔انہوں نے کہا کہ میں تجویز دیتا ہوں کہ اس وزارت کا کام زیادہ ہے، ایک اور وزیر کو چارج دے دیناچاہئے۔براڈکاسٹ کیلئے علیحدہ وفاقی وزیر ہونا چاہئے اور یہی حل ہے۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے مزید کہا کہ آپ کی حکومت کو ایک اور وزیر کی ضرورت ہے کیونکہ صحافیوں کے پنشن اور تنخواہوں کے مسائل ہیں۔سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے خلاف میاں جاوید لطیف کی 13 ستمبر 2022 کو پی ٹی وی پر نفرت انگیز گفتگو کا معاملہ کمیٹی میں زیر بحث آیا۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ اس معاملے سے متعلق جواب اگر پہلے دے دیا جاتا تو سب تیاری کر کے آتے۔جس پر ایم ڈی پی ٹی وی و ایڈیشنل سیکرٹری اطاعات ونشریات نے کہا کہ یہ تقریر نہیں پریس کانفرنس تھی۔اس پریس کانفرنس کے انتظام میں پی ٹی وی کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔پی ٹی وی پریس کانفرنس کیلئے پرائیویٹ چینلز کی درخواست پر کلین فیڈ دیتے ہیں۔وزیر کے پریس کانفرنس میں مداخلت نہیں کر سکتے۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پریس کانفرنس میں سابق وزیراعظم عمران خان کے حوالے سے نفرت انگیز مواد کو نشرکیا گیا۔نفرت انگیز کلپس بھی نشر کئے گئے۔نیشنل ایکشن پلان میں یہ بات طے ہوگئی کہ نفرت انگیز مواد ناقابل قبول نہیں ہوگا۔مذہبی نفرت انگیز مواد کو سپورٹ نہیں کرنا چاہئے،آپ لائیو فیڈ میں ڈیلے کر کے چلا سکتے تھے۔ایم ڈی پی ٹی وی نے کہا کہ ٹرانسمیشن معمول کے مطابق ہوتی ہے پریس کانفرنس کے انتظام میں کوئی کردار نہیں ہے۔

سینیٹرعرفان صدیقی نے کہا کہ کسی کے مذہب پر تنقید اور غیر مسلم کہہ دینا قابل برداشت نہیں،میں اس کی تائید نہیں کرتا،اس کی تحقیق ہونی چاہئے۔سرخیاں جاوید لطیف نے نہیں لگائی جنہوں نے اچھالا ہے اس سے بھی پوچھنا چاہئے۔ماضی کی حکومتوں میں بھی یہی روایت رہی ہے جو کہ نہیں ہونی چاہئے،اس معاملے کی رپورٹ کمیٹی میں لازمی پیش ہونی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ میں مانتا ہوں کہ سرکاری ادارے کو یہ نہیں کرنا چاہئے۔جس طرح ہم عمران خان کی باتیں نظر انداز کرتے ہیں آپ بھی کرلیا کریں۔جو کلپس چلے ہیں اس کی تحقیق ہونی چاہئے اور اس طرح کا عمل نہیں ہونا چاہئے تھا۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پی ٹی وی پر مذہبی ہم آہنگی اور اخلاقیات کو فروغ دینے کے حوالے سے عمران خان نے کافی اقدامات اٹھائے ہیں۔اگر میری حکومت میں ایسی بات ہوئی ہوتی تو میں لازمی ایکشن لیتا۔ایم ڈی پی ٹی وی نے کہا کہ اس عمل کی تائید نہیں کی جا سکتی جب مجھے علم ہوا تو اس کو دوبارہ نشر نہیں کیا گیا۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے معاملے کی رپورٹ مرتب کرکے کمیٹی میں پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کسی کی بھی حکومت ہو اس طرح نہیں ہونا چاہئے۔چیئرمین کمیٹی نے ایم ڈی پی ٹی وی سے سوال کیا کہ جو کلپ چلا ہے وہ آپ کے چینل سے کس نے چلایا ہے؟اس کی بھی تحقیق کر لیں کہ پی ٹی وی پر نفرت انگیز کلپس کس نے چلائے۔ایم ڈی پی ٹی وی نے کہا کہ جب تحقیقات ہوں گی تو پتہ چلے گا کہ کس نے کلپ چلایا ہے۔

چیئرمین و اراکین کمیٹی نے کہا کہ اس کی اندرونی انکوائری کرائیں،سات روز کے اندر معاملے کے حوالے سے رپورٹ میں پیش کریں اور لائیو فیڈ کے دوران ڈیلے میکینزم کو بھی فعال بنائیں۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے عمران خان سے متعلق نفرت انگیز مواد نشر کرنے کے حوالے سے رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے پیمرا کو بھی پرائیوٹ چینلز پر نفرت انگیز مواد نشر کرنے کے حوالے سے تحقیقات کا حکم دے دیا۔

پیمرا حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ صرف دو چینلز نے مواد نشر کیا اور ان کو شوکاز نوٹس جاری کئے ہیں۔چینلز کے ایڈیٹورئیل پالیسی میں مداخلت نہیں کرتے۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ٹی وی چینلز کو اشتہارات کی تقسیم کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے حکام نے کمیٹی اجلاس میں سال2013 سے2018 اور2018 سے 2022 اپریل تک کا ڈیٹا پیش کیا۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اشتہارات کی تقسیم میں علاقائی چینلز کی ویور شپ کو کیوں نہیں دیکھا جاتا۔ سرکار کو چاہئے کہ ان علاقائی چینلز کا بھی خیال کریں۔سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ سندھ کے چینلز کو بھی حصہ نہیں ملتا۔پی آئی ڈی کے پریس انفارمیشن آفسیر کمیٹی کو بتایا کہ جیو کو سال2013 سے2018 تک62 کروڑ روپے ملے اور اے آر وائی کو 8 کروڑ روپے ملے۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ دونوں چینلز ایک ہی کیٹیگری میں آتے ہیں لیکن ریٹس میں اور اشتہارات دینے میں کیوں اتنا فرق ہے۔حکام پی آئی ڈی نے کمیٹی کو بتایا کہ اس وقت کیٹیگریز نہیں تھیں۔ اشتہارات کی تقسیم کے وقت سپانسرنگ ایجنسی کے نقطہ نظر کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوتا ہے۔اگلی لسٹ میں علاقائی چینلز کی تفصیلات مہیا کردیں گے۔سال2008 سے2013 میں اشتہارات کی تقسیم کار کا سسٹم الگ تھا۔

چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ اشتہارات کی تقسیم میں تضاد بہت زیادہ ہے ایسے دوبارہ نہیں ہونا چاہئے،میکیزم کو بہتر کریں۔سال2008 سے2013 تک کے اشتہارات سے متعلق محکمہ جات سے ڈیٹا لے کر کمیٹی کے اجلاس میں پیش کریں۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پی ٹی آئی دور کا چینلز کو اشتہارات دینے کا ڈیٹا بھی پیش کیا گیا۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اشتہارات کے حوالے سے میکیزم طے کیا جائے اور سیاسی بنیادوں پر اشتہارات کی بندر بانٹ نہیں ہونی چاہئے،ویورشپ کے مطابق اشتہارات کی تقسیم انصاف پر ہونی چاہئے۔بہت سال گزر گئے لیکن اشتہارات کی تقسیم کے میکینزم کے حوالے سے معاملات طے نہیں ہوئے،اگلی میٹنگ میں اس حوالے سے اندرونی کمیٹی کی رپورٹ کمیٹی میں پیش کریں۔

ریڈیو پاکستان راولپنڈی کے دفتر میں درختوں کی کٹائی کے معاملے پر رپورٹ بھی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پیش گی۔یہ معاملہ سینیٹر عرفان صدیقی کی جانب سے اٹھایا گیا تھا۔ ایڈیشنل سیکریٹری اطلاعات نے کہا کہ اس معاملے پر جو کمیٹی بنائی گئی تھی اس کی رپورٹ پیش کردی گئی ہے اب جو کمیٹی فیصلہ کرے گی اس کو تسلیم کیا جائے گا۔انکوائری کر کے ذمہ داروں کا تعین کریں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں