Govt’s unilateral policies causing grave strain on federation, says President Zardari

اپوزیشن کے شور شرابے اور ہنگامہ آرائی نے صدر زرداری کے خطاب کا مزہ کر کرا کر دیا

اسلام آباد(بیورو رپورٹ)پارلیمانی سال مکمل ہونے پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا جس سے صدر مملکت آصف علی زرداری نے 8 ویں بار خطاب کیا،تقریر شروع ہوتے ہی اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا،نعرے لگائے جو پوری تقریر کے دوران جاری رہے۔
”پاکستان ٹائم“کے مطابق پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا جس سے صدر زرداری نے خطاب کیا،ایجنڈے کے مطابق صدر مملکت کے خطاب کے سوا کوئی اور کارروائی اجلاس میں شامل نہیں تھی۔اجلاس میں شرکت لیے وزیر اعظم شہباز شریف،اسحاق ڈار،بلاول بھٹو زرداری،آصفہ بھٹو،خواجہ آصف،مریم نواز،پرویز خٹک،وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ،وزیر اعلی بلوچستان سرفراز بگٹی،گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر بھی پارلیمنٹ ہاوس پہنچے،غیر ملکی سفراء کے بڑی تعداد بھی مہمان گیلری میں موجود تھے۔اجلاس میں خورشید شاہ،عبدالقادر پٹیل،شیری رحمان،فاروق ایچ نائیک، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب،شرمیلا فاروقی،سحر کامران،سید نوید قمر،آغا رفیع اللہ،شیری رحمان،طاہرہ اورنگزیب، فاطمہ زہرا،نور عالم خان،حنیف عباسی،شہلا رضا،سلیم مانڈوی،امیر مقام،راجہ پرویز اشرف،رمیش لال،انوار الحق کاکڑ، مصدق ملک نے بھی شرکت کی۔اس سے قبل خطاب کرنے کے لیے صدر مملکت آصف علی زرداری پارلیمنٹ ہاوس پہنچے تو چیمبر میں وزیر اعظم اور صدر زرداری کے درمیان ملاقات بھی ہوئی،اس موقع پر سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اور ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار بھی موجود تھے۔مشترکہ اجلاس شروع ہوتے ہی پی ٹی آئی اراکین نے ایوان میں آتے ہی نعرے بازی کی اور ایوان میں پلے کارڈ بھی لے آئے۔اس وقت بڑی دلچسپ صورتحال بن گئی جب پرویز خٹک غلطی سے اپوزیشن بنچز کے طرف چلے گئے پھر یاد آنے پر واپس آئے اور وزیر اعظم شہباز شریف اور نائب وزیر اعظم سے مصافحہ کیا۔

صدر زرداری نے خطاب شروع کیا تو اپوزیشن نے شور شرابہ شروع کر دیا،صدر مملکت نے ہیڈ فون لگا لیا،وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی ہیڈ فون لگا لیے۔صدر مملکت تقریر کے دوران اپوزیشن کی جانب دیکھ کر مسکراتے رہے۔احتجاج کے دوران اپوزیشن لیڈر عمر ایوب مکے مار مار کر ڈیسک بجاتے رہے،پی ٹی آئی اراکین کی جانب سے عمران خان کے حق میں نعرے بازی ہوتی رہی۔اپنے خطاب میں صدر مملکت نے کہا کہ پارلیمانی سال کے آغاز پر اس ایوان سے بطور سویلین صدر 8ویں بار خطاب کرنا میرا واحد اعزاز ہے،ایوان بہتر طرز حکمرانی،سیاسی اور اقتصادی استحکام کے فروغ پر توجہ مرکوز کرے،ہمارے عوام نے اپنی امیدیں پارلیمنٹ سے وابستہ کر رکھی ہیں ہمیں عوام کی توقعات پر پورا اترنا چاہیے، جمہوری نظام مضبوط کرنے،قانون کی حکمرانی پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کیلئے محنت کی ضرورت ہے،اس ایوان کو اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے لینا چاہیے،یہ ایوان گورننس،خدمات کی فراہمی کے نتائج کو ازسرِ نو ترتیب دینے میں اپنا کردار ادا کرے،وزارتوں کو بھی اپنے وژن اور مقاصد کو از سر نو متعین کرنے کی ضرورت ہے،وزارتیں ادراک کریں کہ عوام کو درپیش اہم مسائل کو ایک مقررہ مدت میں حل کرنا ہو گا،جمہوری اداروں پر عوامی اعتماد بحال کرنے کیلئے ٹھوس فوائد پہنچانے کی ضرورت ہے،جمہوریت میں کچھ دینے اور لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔

صدر مملکت کا کہنا تھا کہ اراکین پارلیمنٹ اتحاد اور اتفاق کا سوچیں جس کی ہمارے ملک کو اشد ضرورت ہے،آپ سب سے گزارش ہے کہ اپنے لوگوں کو بااختیار بنائیں،اتفاق رائے سے قومی اہمیت کے فیصلے کریں،آگے بڑھنے کے لیے ٹیکس نظام میں بہتری ناگزیر ہے،پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والوں بوجھ ڈالنے کے بجائے ہر اہل ٹیکس دہندہ قوم کی تعمیر میں حصہ لے،میں اس پارلیمنٹ اور حکومت پر زور دیتا ہوں کہ وہ اگلے بجٹ میں عوام کو حقیقی ریلیف فراہم کریں، حکومت کو آئندہ بجٹ میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافے،تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس کم کرنے اور توانائی کی لاگت کم کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں،ہمیں ملازمتوں میں کمی سے بچنا چاہیے،ہماری توجہ نوکریاں پیدا کرنے اور تربیت یافتہ افرادی قوت کے نتیجہ خیز استعمال پر مرکوز ہونی چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ آج دہشت گردوں کو جو بیرونی سپورٹ اور فنڈنگ مل رہی ہے اس سے ہم سب واقف ہیں،دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری سیکیورٹی فورسز نے اپنی جانیں قربان کی ہیں،ہم دہشت گردی کو دوبارہ سر اٹھانے کی اجازت نہیں دے سکتے،قوم کو مسلح افواج پر فخر ہے، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عسکریت پسندی کی جڑیں محرومی اور عدم مساوات میں پائی جاتی ہیں،دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے خطوں کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے،روزگار پیدا کرنا چاہیے۔

آصف زرداری نے کہا کہ صدر مملکت کی حیثیت سے میرا آئینی فرض ہے،محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے میری ذاتی ذمہ داری ہے کہ میں ایوان اور حکومت کو خبردار کروں کہ آپ کی کچھ یک طرفہ پالیسیاں وفاق پر شدید دباو کا باعث بن رہی ہیں،خاص طور پر وفاقی اکائیوں کی شدید مخالفت کے باوجود حکومت کا دریائے سندھ کے نظام سے مزید نہریں نکالنے کا یکطرفہ فیصلہ،میں اس تجویز کی بطور صدر حمایت نہیں کر سکتا،میں اس حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس موجودہ تجویز کو ترک کرے،تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرے تاکہ وفاق کی اکائیوں کے درمیان متفقہ اتفاق رائے کی بنیاد پر قابل عمل،پائیدار حل نکالا جا سکے،آئیے ہم ایک ایسا پاکستان بنانے کی کوشش کریں جو منصفانہ،خوشحال اور ہمہ گیر ہو،آئیے اس پارلیمانی سال کا بہترین استعمال کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں