اسلام آباد(عامر خان ایڈووکیٹ)سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے اتوار 16 اکتوبر کے ضمنی الیکشن میں بیک وقت چھ نشستیں جیت کر اپنا ہی ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ 2018 کے انتخابات میں وہ بیک وقت پانچ نشستوں پر جیت کر پاکستان میں ایک ہی الیکشن میں سب سے زیادہ سیٹیں جتنے والے رکن پارلیمنٹ بنے تھے۔حالیہ تاریخ ساز کامیابی کے بعد عمران خان نے کونسی چھ نشستیں چھوڑنی ہیں اورکب اور کیا میانوالی کی نشست خالی قرار پائے گی؟اس حوالے سے سیاسی کارکنوں میں بحث جاری ہے جبکہ عمران خان کی جانب سے جیتی گئی ان چھ سیٹوں پردوبارہ الیکشن کی مدت آئین میں درج ہے،جو دلچسپی سے خالی نہیں ،’پاکستان ٹائم‘ نے ایک بار پھر اپنے قارئین کو اس دلچسپ صورتحال سے آگاہ رکھنے کے لئے معلومات اکٹھی کی ہیں ۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان کے آئین اور انتخابی قوانین کے تحت ایک رکن پارلیمنٹ ایک سے زائد نشست اپنے پاس نہیں رکھ سکتا لہذا عمران خان جو الیکشن سے پہلے ہی قومی اسمبلی کی ایک نشست سے رکن ہیں، کو کم ازکم 6 نشستیں خالی کرنا ہوں گی۔آئین کا آرٹیکل 223 پارلیمنٹ کی دہری رکنیت پر پابندی عائد کرتا ہے۔ اس آرٹیکل کی پہلی شق کے تحت کوئی شخص بیک وقت سینیٹ اور قومی اسمبلی کا رکن نہیں ہو سکتا، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کا رکن نہیں سکتا،دو صوبائی اسمبلیوں کا رکن نہیں ہو سکتا اور کسی اسمبلی کی ایک سے زائد نشستوں سے رکن نہیں ہوسکتا۔البتہ آرٹیکل 223 کی دوسری شق میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ مذکورہ بالا پابندی کسی بھی شخص کو دو یا زائد نشستوں سے امیدوار بننے سے نہیں روک سکتی۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمران کونسی نشستیں چھوڑیں گے؟اس پر بات کی جائے تو آرٹیکل 223 کی دوسری شق میں یہ بھی کہا گیا کہ جب کوئی شخص پارلیمنٹ کی ایک سے زائد نشستوں سے رکن منتخب ہو گا تو اسے ایک کے سوا تمام نشستیں نتائج کا اعلان ہونے کے 30 دن کے اندر اندر خالی کرنا ہوں گی۔اگرمذکورہ رکن پارلیمنٹ مقررہ مدت میں اضافی نشستیں چھوڑنے کا اعلان خود نہیں کرتا تو یہ نشستیں خود بخود خالی قرار پائیں گی اور ان پر پھر سے ضمنی انتخابات کرائے جائیں گے۔آئین میں یہ بھی واضح ہے کہ بیک وقت کئی نشستوں سے منتختب رکن کون سی نشست اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔آرٹیکل 223 میں کہا گیا ہے کہ جسیے ہی کوئی موجودہ رکن پارلیمنٹ دوسری سیٹ کے لیے امیدوار بنتا ہے اور الیکشن جیت جاتا ہے تو نتائج کا اعلان ہوتے ہی پہلی سیٹ خود بخود خالی تصور ہوگی۔ اس حساب سے عمران خان کے پاس یہ آپشن نہیں رہا کہ وہ اتوار کو جیتی گئی تمام نشستیں چھوڑ دیں اور میانوالی کی وہی نشست اپنے پاس رکھیں جہاں سے وہ پہلے ہی رکن اسمبلی ہیں۔
اس ساری صورتحال میں یہ واضح ہے کہ پی ٹی آئی سربراہ کو حالیہ ضمنی الیکشن میں جیتی گئی سیٹوں میں سے ایک اپنے پاس رکھنی ہے۔آرٹیکل کے 223 کے تحت اگر کوئی رکن پارلیمنٹ مقررہ 30 دن میں اپنی اضافی نشستوں سے متعلق فیصلہ نہیں کرتا تو اسے صرف وہ نشست رکھنے دی جائے گی جہاں سے وہ سب سے آخر میں کامیاب ہوا اوراگر مذکورہ رکن پارلیمنٹ ایک ہی دن دو یا زائد نشستوں سے جیتا ہو تو اسے وہ نشست رکھنے دی جائے گی جہاں سے اس کے کاغذات نامزدگی سب سے آخر میں داخل کرائے گئے ہوں۔اگرحالات و واقعات کا جائزہ لیا جائے تو حالیہ انتخابات میں عمران خان کے کاغذات نامزدگی این اے 108 ننکانہ سے سب سے آخر میں 24 اگست کو منظور ہوئے تھے جب کہ دیگر حلقوں سے انہوں نے 12 اگست کو کاغذات داخل کرائے تاہم یہ قانون اسی صورت لاگو ہو گا اگر عمران خان خود اضافی نشستیں چھوڑنے کا اعلان نہیں کرتے۔پہلی صورت یہ ہے کہ وہ خود اتوار کو جیتی گئی سیٹوں میں سے کوئی ایک رکھ لیں۔دوسری طرف عمران خان کی پشاور سے کامیابی کو ان کے مخالف امیدوار غلام احمد بلور نے الیکشن کمیشن یا عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے لہذا پشاور کی نشست رکھنا ان کے لیے مشکل فیصلہ ہو سکتا ہے۔عمران خان نے فیصل آباد میں ن لیگ کے عابد شیرعلی اور ننکانہ صاحب میں ن لیگ کی ہی شذرہ منصب جب کہ چارسدہ میں اے این پی کے ایمل ولی خان کو 10 سے 15 ہزار کی برتری سے شکست دی ہے البتہ این اے 239 کراچی میں وہ بڑے مارجن سے جیتے ہیں۔
خالی نشستوں پر دوبارہ الیکشن کب ہوں گے؟اس سوال پر غور کیا جائے تو جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا، عمران خان کو اضافی نشستوں سے متعلق فیصلہ نتائج کے اعلان کے 30 دن کے اندر اندرکرنا ہے اور اگر وہ فیصلہ نہیں کرتے تو اس مقررہ مدت کے بعد ایک کے سوا تمام نشستیں خالی قرار پائیں گی۔الیکشن کمیشن کی جانب سے نتائج کا اعلان ایک ہفتے کے اندر متوقع ہے۔اس کے بعد 30 دن کا وقت عمران خان کے فیصلے کے لیے ہے۔مذکورہ 30 روزہ مدت کے خاتمے کے بعد الیکشن کمیشن کو ایک ماہ کے اندر اندر انتخابات کرانے ہیں۔ یہ پابندی آئین کے آرٹیکل 224 میں درج ہے۔اگر پی ٹی آئی چیئرمین فوری طور پر اضافی نشستیں چھوڑ دیتے ہیں تو دوبارہ ضمنی الیکشن ڈیڑھ سے دو ماہ میں ہوسکتے ہیں۔بصورت دیگر ڈھائی ماہ میں یہ الیکشن ہونے ہی ہیں۔البتہ اس دوران قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے تو الگ بات ہے۔