اسلام آباد(وقائع نگار خصوصی)معروف صحافی اور نجی ٹی وی کے سینئر اینکر ارشد شریف کے کینیا میں ہونے والے دردناک قتل کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے اور اس حوالے سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر مختلف افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں،ایک مخصوص سیاسی جماعت کی جانب سے ارشد شریف کے قتل پر افواہوںکا بازار گرم کیا جا رہا ہے اور مقتول صحافی کے قتل کو حادثہ بنانے کی کوشش نے سوشل میڈیا پر طوفان کھڑا کر دیا ہے ،وفاقی حکومت اور مسلم لیگ ن کے بعض ذمہ دار بھی ارشد شریف کے قتل کو معمول کی کارروائی قرار دے رہے ہیں جبکہ پاکستان تحرین انصاف ،صحافتی تنظیموں اور سول سوسائٹی نے ارشد شریف کے بہیمانہ قتل کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے ۔
تفصیلات کے مطابق اصولوں پر سودے بازی سے ہمیشہ سے انکار کرنے والے نڈر اور بے باک صحافی ارشد شریف ہمیشہ سے پاکستان کو معاشی طور پر خود مختار، مضبوط اور مستحکم دیکھنے کے خواہشمند رہے لیکن وہ اپنی زندگی میں اس خواہش کو پورا ہوتا نہ دیکھ سکے اور گزشتہ شب انہیں کینیا کے شہر نیروبی میں گولی مار کر شہید کردیا گیا جس کے بعد پاکستان میں شہید ہونیوالے صحافیوں کی فہرست میں ارشد شریف کا بھی اضافہ ہو گیالیکن ان کے پراسرار قتل پر بڑا سوال یہ ہے کہ کیا حکومت قاتلوں کی انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کریگی، یا ارشد شریف کے قاتل بھی اسی طرح آزاد پھرتے رہیں گے جیسے اس سے پہلے قتل ہونیوالے صحافیوں کے قاتل آزاد ہیں؟۔سینئر صحافی ارشد شریف کا صحافتی کیریئر 29 سال پر محیط رہا، وہ مختلف ٹی وی چینلز میں بطور ڈائریکٹراور اینکر پرسن ذمہ داریاں ادا کرتے رہے تاہم نجی ٹی وی چینل پر پروگرام ”پاور پلے“ ان کی وجہ شہرت بنا۔کراچی میں پیدا ہونے والے سینئر صحافی ارشد شریف نے 1993 میں زمانہ طالب علمی میں ہی بطور فری لانسر کام کرتے رہے اور پھر 1999 میں میں ہفتہ وار جریدے پلس سے منسلک ہوئے، اسی برس انگریزی اخبار دی نیوز اور دو سال بعد ڈیلی ڈان کا حصہ بنے۔ارشد شریف نے دنیا نیوز اور آج نیوز میں بطور ڈائریکٹر نیوز اور اینکر پرسن خدمات انجام دیں۔ ارشد شریف کو تحقیقی صحافت میں مہارت حاصل تھی وہ کئی بین الاقوامی خبر رساں اداروں کیساتھ کام کرتے رہے۔ارشد شریف کو صحافتی خدمات پر 23 مارچ 2019 کو صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا۔مقتول ارشد شریف کے والد محمد شریف بحریہ کے کمانڈر تھے جب کہ ان کے بھائی پاکستان نیوی میں میجر تھے، میجر اشرف شریف کو بھی شہید کیا گیا تھا۔ ارشد شریف نے سوگوران میں اہلیہ اور 5 بچے چھوڑے ہیں جب کہ وہ اپنے خاندان کے واحد مرد سرپرست تھے۔صحافی اور اینکر ارشد شریف کے کینیا میں قتل کے بعد ان کے دوست احباب صدمے سے دوچار ہیں۔ ان کی اہلیہ جویریہ صدیق کا کہنا ہے کہ رواں برس 10 اگست کو وہ پاکستان سے دبئی روانہ ہوئے تھے۔ گذشتہ ایک ماہ سے ویزا ختم ہونے کے باعث وہ کینیا میں قیام پذیر تھے،میری ارشد سے آخری بات اتوار کی رات 10 بجے ہوئی تھی۔ اس کے بعد میسج کرنے پر بھی ان کے جواب نہیں آئے، میں نے سوچا وہ کام میں مصروف ہوں گے،کچھ دیر بعد ان کا نمبر بھی بند ہو گیا لیکن رات دو بجے نیروبی میں ان کے دوست کی کال آئی کہ ان کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ پھر کچھ دیر بتایا گیا کہ سر پہ گولی لگی ہے اور وہ قتل کر دیے گئے ہیں۔جویریہ صدیق نے کہا کہ پچھلے چھ ماہ سے ارشد کو دھمکیاں مل رہی تھیں جس کی وجہ سے انہوں نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیااور جب ارشد سے کہا کہ آپ اسائلم (سیاسی پناہ) کے لیے درخواست دیں تو انہوں نے کہا کہ میرا ملک پاکستان ہے میرا جینا مرنا وہیں پہ ہے،میںکچھ دن تک پاکستان آجاوں گا ،اب وہ واپس آ تو رہے ہیں لیکن کفن میں۔انہوں نے کہا کہ چھ ماہ پہلے طالبان نے قتل کی دھمکیاں دیں، ہمیں کے پی کے حکومت نے بتایا جس کے بعد ارشد دبئی چلے گئے تھے لیکن ہماری طالبان کے ساتھ کیا دشمنی ہے؟ ارشد کو دبئی میں خطرہ تھا، ان کے قاتلوں نے وہاں بھی پیچھا کیا۔ یہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ ٹارگٹڈ قتل ہے اور اس کا ارشد کو علم تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے،دبئی میں ان کا ویزا ختم ہو گیا اور پاکستان وہ دھمکیوں کی وجہ واپس آ نہیں سکتے تھے ،اس لیے ویزا دوبارہ لینے کے لیے انہوں نے افریقی ملک کا انتخاب کیا جہاں ان کا دوست موجود تھا جس نے ان کی میزبانی کی اور سانحے کی رات وہ دوست کے فارم ہاو¿س کی جانب جا رہے تھے،کل تک ہمیں علم نہیں تھا کہ وہ کینیا میں ہیں، ہمیں صرف یہ علم تھا کہ وہ کسی افریقی ملک میں ہیں، سکیورٹی خدشات کی وجہ سے انہوں نے ملک کا نام نہیں بتایا تھاکہ وہ کس ملک میں رہ رہے ہیں،ارشد ایک ذمہ دار انسان تھے، ذمہ دار شوہر، بیٹے اور باپ تھے، ابھی پچھلے ہفتے تک وہ اپنے اہل خانہ کی مالی ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے۔ انہوں نے کبھی کسی چیز میں کوتاہی نہیں کی۔ میرا تو شوہر اور دوست دونوں بچھڑ گئے ہیں، آج تک کس کو ملا انصاف ہے؟ اگر ملتا بھی ہے تو جو دنیا سے چلا گیا وہ واپس کیسے آئے گا؟
”وہ کون تھا “جو اس دنیا سے چلا گیا اور کہرام مچ گیا ، جس کے جانے سے اس کے حامی اور مخالف سبھی کی آنکھوں میں آنسو ہیں ، وہ پاکستان کی تحقیقاتی صحافت کا بڑا نام ارشد شریف تھا۔پاکستان کے سینئر صحافی اور سینئر اینکر پرسن ارشد شریف عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد جان بچا کر ملک سے باہر نکلے اور پراسرار طور پر کینیا کے شہر نیروبی میں قتل کر دئیے گئے، ان کی موت کی خبر نے پاکستان میں ہلچل مچادی۔ ارشد شریف تحقیقاتی صحافت کا بڑا نام ہے اور انہیں سوال اٹھانے کے جرم میں قتل کر دیا گیا۔ارشد شریف ایک ایسا صحافی تھا جو پاکستان کیلئے اپنی جان خطروں میں ڈالتا رہا،ارشد شریف ایک ایسا صحافی تھا جو گولہ باری اور فائرنگ میں بھی رپورٹنگ کرتا رہا لیکن افسوس کہ آج اسی ارشد شریف کے پراسرار قتل کو میڈیا اور سوشل میڈیا پر متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا پر ارشد شریف کی موت کے حوالے سے مختلف افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں، خواہشات کو خبر کے روپ میں پیش کیا جا رہا ہے۔پاکستان کے نامور صحافی سلیم شہزاد، حامد میر، ابصار عالم، اسد طور، پراسرار کارروائیوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں جب کہ عمران ریاض خان اور جمیل فاروقی کو بھی قید کیا گیا تاہم ان تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستانی صحافیوں کے حوصلے بلند ہیں۔سینئر صحافی ارشد شریف شدید دباو¿ پر ملک تو چھوڑ گئے تھے لیکن سوال اٹھانا انہوں نے پھر بھی نہیں چھوڑا، اور اسی سوال اٹھانے کے جرم میں قتل کر دئیے گئے اور اب ان کے قتل سے متعلق غلط اطلاعات اور بے بنیاد کہانیاں پیش کی جا رہی ہیں۔
کینیا کے نامور صحافی برائن اوبائیو نے ارشد شریف کے قتل پر بڑے سوالات کھڑے کر دئیے۔ ٹوئٹ میں کینیا پولیس کی رپورٹس میں خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ کینیا پولیس نے پیچھے سے ہونیوالی فائرنگ کا واقعہ تو رپورٹ کیا ہے مگر یہ ہی نہیں بتایا کہ فائرنگ کس نے کی؟
خیال رہے کہ سینئر صحافی ارشد شریف اتوار کی شب کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے قریب فائرنگ کے ایک واقعے میں مارے گئے تھے اور ان کی موت کی تصدیق ان کی اہلیہ جویریہ نے ٹوئٹر پر کرتے ہوئے کہا ” آج میں نے اپنا دوست، شوہر اور پسندیدہ صحافی کھو دیا“۔جویریہ صدیق نے درخواست کی کہ ارشد شریف کی کینیا کے مقامی ہسپتال میں لی جانے والی آخری تصویر کو شیئر نہ کیا جائے۔
واضح رہے کہ سینئر صحافی ارشد شریف طویل عرصے سے نجی چینل سے وابستہ تھے تاہم انہیں مسلسل دھمکیاں مل رہی تھیں اور ان کی جان کو خطرات لاحق تھے جس کے باعث وہ پہلے متحدہ عرب امارات اور پھر کینیا کے شہر نیروبی میں قیام پذیر تھے ۔