کامونکی(وقائع نگار خصوصی)پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ شہباز شریف حکومت کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے،پارٹی اور ووٹ بینک نواز شریف کا ہے،ہم شہباز شریف سے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات چاہتے ہیں جن کے پاس طاقت ہے،شہباز شریف کی تو اپنی پارٹی بات نہیں سنتی،اس سے کیا بات کرنی ؟۔
نجی ٹی وی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ اصل پاور نواز شریف لے کر بیٹھا ہے، نواز شریف جو کہتا ہے وہ شہباز شریف کرتا ہے،اس (شہباز شریف)کا نہ ووٹ بینک ہے نہ پبلک سپورٹ ہے،پارٹیز اس کی سنتی نہیں ہیں،اس کے پاس ہے کیا؟اس سے بات کیا کرنی ہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر مذاکرات آپ کے کامیاب ہونے ہیں تو کن کے زریعے آپ کروا سکتے ہیں؟
تو اس پر عمران خان کا کہنا تھا کہ دیکھیں کامیابی تو ایک ہی ہے کہ اسٹبلشمنٹ بیچ میں بیٹھے جس کے پاس پاور ہے اور وہ الیکشنز کروائے۔اس کے علاوہ راستہ تو اور کوئی ہے ہی نہپیں،ملک کا تو بیڑہ غرق کر رہے ہیں یہ،سوائے اپنی چوری اپنے کرپشن کیسز ختم کرنے نے کے،ملک کو تو تباہی کی طرف لے جارہے ہیں یہ۔
مذاکرات کی ناکامی پر پنجاب اور کے پی حکومت ختم کرنے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ وہ ہم بعد میں بتائیں گے کہ کیا کرنا ہے،ابھی تو پرامن احتجاج ہے اور پرامن طریقے سے اپنے آئین اور قانونی حق استعمال کرتے ہوئے ہم احتجاج کریں گے اسلام آباد میں۔“
دوسری طرف پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم انحصار عوام پر کر رہے ہیں،ہم سمجھتے ہیں کہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہے،فیصلہ عوام نے کرنا ہوتا ہے،جب تک عوام کی تائید آپ کے ساتھ نہ ہو مقتدر حلقے آپ کے ساتھ ہوں بھی تو بے سود ہوگا،جمہوریت عوام کے بل بوتے پر ہوتی ہے،ہم عوامی رابطہ مہم پر ہیں،ہم لوگوں کو جگا رہے انہیں ان کے حقوق کے بارے میں آگاہ کر رہے ہیں،حقیقی آزادی کا لوگوں کے ذہنوں میں ایک جذبہ پیدا کر رہے ہیں،ہمارا قافلہ ہماری توقعات سے بہتر جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا اوریجنل پلان تو سارا درہم برہم ہوگیا،اوریجنل پروگرام کے مطابق ہمیں جمعرات کی شام یا جمعے کو اسلام آباد پنڈی پہنچنا تھا،جس رفتار سے ہم جارہے ہیں جس رفتار سے استقبال ہورہے ہیں ناممکن ہے کہ ہم وہاں پہنچ سکیں،ہمیں آج اپنے سارے پروگرام پر نظر ثانی کرنی ہوگی،ہمیں اپنے قافلوں کو ایک مرتبہ دوبارہ بتانا ہوگا کہ انہیں اسلام آباد آمد کو ریویو کرنا ہوگا،ہم ان(وفاقی حکومت)سے مذاکرات کرنے سے انکاری نہیں ہیں،ہم کہہ رہے ہیں کہ وہ بے اختیار ہیں،فیصلہ انہوں نے کرنا نہیں ہے،فیصلہ جنہوں نے کرنا ہے انہوں نے کرنا ہے،ہم کسی کے خلاف تقاریر نہیں کر رہے اور نہ ہم کسی کے خلاف ہیں،ہم کسی ادارے کے خلاف نہیں ہے،غلط رنگ دیا جارہا ہے،ہم کہہ رہے ہیں کہ اداروں کے اندر کوئی فرد یا افراد تجاوز کرتے ہیں قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں تو ان کا نوٹس لینا چاہئیے۔
