ارشد شریف کا قتل،پہلی بارتہلکہ خیز انکشافات منظر عام پر آ گئے

نیروبی(خصوصی رپورٹ)پاکستان کے معروف صحافی،تجزیہ کار اور اینکر پرسن ارشد شریف کا کینیا میں ہونے والے قتل کی گتھیاں سلجھنے کی بجائے مزید الجھتی جا رہی ہیں،اب تک کی تحقیقات میں ہونے والی پیش میں رفت تہلکہ خیز انکشافات سامنے آئے ہیں،پاکستانی وزیرداخلہ رانا ثناءاللہ نے تحقیقاتی ٹیم کی بریفنگ کے بعد ارشد شریف کے قتل کو ٹارگٹ کلنگ قرار دیا ہے جبکہ دوسری طرف معروف خبر رساں تحقیقاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ارشد شریف کو جس گاڑی میں نشانہ بنایا گیا وہ چوری شدہ گاڑی نہیں تھی جبکہ کینیا کی پولیس کو بھی اس بارے میں علم تھا لہذا پولیس کا ابتدائی بیان مکمل جھوٹ پر مبنی تھا ۔
تفصیلات کے مطابق معروف خبر رساں ادارے نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ کینیا کی پولیس نے جس گاڑی کو چوری شدہ قرار دے کر صحافی ارشد شریف کی گاڑی پر گولی چلائی،اس کے مالک کا کہنا ہے کہ پولیس کو علم تھا کہ اصل گاڑی نیروبی شہر کے مضافات میں موجود ہے جبکہ ارشد شریف کی گاڑی پر گولی نیروبی سے 100 کلومیٹر سے بھی زیادہ دور مقام پر چلائی گئی۔چوری شدہ گاڑی کے مالک ڈگلس کماﺅ نے تحقیقاتی صحافیوں کے گروپ کو ایک تحریری بیان میں بتایا ہے کہ ان کی گاڑی میں ٹریکنگ کے جدید ترین آلات نصب تھے جو گاڑی کی لمحہ بہ لمحہ لوکیشن سے پولیس کو آگاہ کر رہے تھے۔کماﺅ نے یہ بھی بتایا کہ پولیس نے ان کے ہمراہ ان کی گاڑی رات ساڑھے 9 بجے بازیاب کرا لی تھی جبکہ ارشد شریف کی گاڑی کو ناکہ لگا کر روکنے کی کوشش اور فائرنگ کا واقعہ،پولیس کی رپورٹ کے مطابق،رات 10 بجے پیش آیا تھا۔
معروف خبر رساں ادارے نے مبینہ طور پر چوری ہونے والی گاڑی اور جس گاڑی میں ارشد شریف سوار تھے دونوں کا رجسٹریشن ریکارڈ باضابطہ طور پر درخواست دے کرحاصل کیا ہے۔ارشد شریف جس گاڑی ٹویوٹا لینڈ کروزر میں سوار تھے اسکی تصاویر میڈیا میں شائع ہوئیں۔معروف خبر رساں ادارے نے ڈگلس کی گاڑی کی تصویر انٹرنیٹ سے حاصل کر کے ڈگلس کے آفس سے اس کی تصدیق بھی کروائی۔دونوں گاڑیوں کی ظاہری شکل میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
تصدیق شدہ حقائق کے مطابق کینیا کی پولیس کے ترجمان برونو شﺅسو نے کہا ہے کہ چونکہ خود پولیس پر تحقیقات ہو رہی ہیں،اس لیے وہ اس موضوع پر کوئی بیان نہیں دے سکتے تاہم یاد رہے کہ ابتدائی بیانات میں کینیا کی پولیس نے اس ہلاکت کو ’شناخت میں غلطی‘ کی بنیاد پر کی گئی کاروائی قرار دیا تھا۔کینیا کی پولیس پر ماورائے عدالت قتل کے الزامات تواتر سے میڈیا میں رپورٹ ہوتے آئے ہیں۔مختلف ملکوں کے شہریوں کے کینیا کی پولیس کے ہاتھوں مارے جانے کے واقعات پر ہیومن رائٹس واچ اور دیگر بین الاقوامی ادارے مذمت کر چکے ہیں۔کینیا میں پولیس کے نگران ادارے کی کمشنر کا کہنا ہے ارشد شریف کی گاڑی کو ناکے پر روکنے کے اسباب پر شکوک پائے جاتے ہیں۔کینیا کی انڈیپنڈنٹ پولیسنگ اتھارٹی(آئی پی او اے)کی کمشنر پراکسیڈس ٹروری کا کہنا تھا کہ ابتدئی طور پر ان کا شبہہ یہی تھا کہ ارشد شریف کی گاڑی پر پولیس ناکے پر نہ رکنے کی وجہ سے گولی چلائی گئی لیکن ان کے بقول اب وہ نہیں سمجھتیں کہ اس کی وجہ یہ تھی،ہماری تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گاڑی کی تلاش کے لیے جو نمبر پلیٹ پولیس کو دی گئی تھی وہ ارشد شریف کی گاڑی کے نمبر سے مختلف تھی۔یقینی طور پر یہ دو الگ الگ گاڑیاں ہیں۔
پاکستان کی تحقیقاتی ٹیم اور حکومت کیا کہہ رہی ہے؟
پاکستان کی حکومت نے ارشد شریف کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے ایک ٹیم کینیا بھیجی تھی جو واپس آ چکی ہے۔وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ کے مطابق اگرچہ اس معاملے میں مزید تفتیش درکار ہے لیکن ابتدائی معلومات سے یہ لگتا ہے کہ کینیا کی پولیس کا’شناخت میں غلطی‘ کا موقف درست نہیں اور اس بارے میں کافی شکوک و شبہات ہیں،اب تک کی جو چیز سامنے آئی ہے،بادی النظر میں ارشد شریف مرحوم کو قتل کیا گیا ہے اور یہ ٹارگٹڈ قتل تھا۔وزیرداخلہ نے مزید کہا کہ ارشد شریف کیس میں کینیا میں ان کے میزبان خرم اور وقار کا کردار اہم ہو گا۔
ارشد شریف کے کینیا میں میزبان کون ہیں، کیا کرتے ہیں؟
کینیا میں ارشد شریف کے میزبان وقار احمد اور خرم احمد وہاں اسلحے اور پراپرٹی ڈویلپمنٹ سمیت مختلف کاروبار کرتے ہیں۔اسلحہ چلانے کی پروفیشنل تربیت دینے کے ایک اہم ادارے ایموڈمپ کے مالک ہیں۔ایمو ڈمپ کی ویب سائیٹ کے مطابق یہ ادارہ پولیس، انٹیلیجنس،لا انفورسمنٹ ایجنسیز اور دیگر حکومتی ایجنسیز کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔اپنی ویب سائیٹ پر ایموڈمپ ان حکومتی اداروں کے ساتھ اپنے مثالی تعلقات کا دعوٰی کرتا ہے۔پاکستان کی تحقیقاتی ٹیم سے منسوب میڈیا اطلاعات کے مطابق کینیا میں ارشد شریف کے میزبان دو بھائیوں وقار احمد اور خرم احمد میں سے وقار نے 7 اگست کو ارشد شریف کو ایک سپانسر لیٹر جاری کیا۔تحقیقاتی ٹیم کے دعوے کے مطابق 8 اگست کو ارشد شریف نے کینیا میں وزٹ ویزے کے لیے درخواست کیا اور اس کے ساتھ وقار احمد کا سپانسر لیٹر لگایا اور انہیں اسی دن ہی کینیا کا وزٹ ای ویزا آن لائن جاری ہوگیا۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق خرم احمد پچھلی دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے مسلسل پاکستان سے بیرونِ ملک سفر کرتے رہے ہیں۔ اگر صرف پچھلے پندرہ برسوں کا ایف آئی اے کا ریکارڈ دیکھ لیں تو دو ہزار آٹھ میں خرم احمد سات دفعہ پاکستان سے دوبئی روانہ ہوئے۔ اسی طرح دو ہزار نو میں انھوں نے چھ دفعہ پاکستان سے دبئی کا سفر کیا۔ دو ہزار دس اور دو ہزار گیارہ میں انھوں نے بارہ دفعہ پاکستان سے دوبئی کا سفر کیا۔ ہر مرتبہ ان کی منزل کینیا ہی ہوتی تھی۔2012 سے سال 2022 تک وقار احمد نے 55 دفعہ پاکستان سے بیرون ملک کینیا سمیت مختلف ممالک کا سفر کیا۔اس لیے اگست یا اکتوبر میں انکے کینیا جانے کو خاص اہمیت نہیں دی جاسکتی،وہ عموماً آتے جاتے رہتے تھے۔وقار اور خرم کے تیسرے بھائی کا نام آصف احمد ہے جو کہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ان کے والد کانام افضال احمد ہے۔خاندان کے باقی افراد کی طرح ایف آئی اے کے سفری ریکارڈ کے مطابق افضال احمد بھی مسلسل بین الاقوامی سفر کرتے رہے ہیں اور عموماً انکی منزل کینیا ہی ہوتی ہے۔اس واقعے کے 3 دن بعد 26 اکتوبر کو رات 10 بجے افضال احمد کراچی سے بذریعہ دوبئی کینیا کیلیے روانہ ہو گئے۔
ارشد شریف کو کن حالات میں پاکستان چھوڑنا پڑا؟
ارشد شریف جو کئی سالوں سے پاکستان میں طاقت ور ترین ادارے فوج کے قریب سمجھے جاتے تھے، اپنی موت سے پہلے کے چند مہنیوں میں فوج کے سیاست میں کردار پر تنقید کرتے آ رہے تھے۔خاص طور پر فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا نام لے کر۔ارشد شریف کے خلاف پاکستان کے مختلف شہروں میں بظاہر اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے مختلف مقدمے قائم کیے گئے۔انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک پٹیشن کے ذریعے اپنی گرفتاری کے خلاف عبوری حکم بھی حاصل کیا۔ارشد شریف کے زیادہ قریب رہنے والے صحافی ان کی زندگی میں ہی ان پر حملے کا خدشہ ظاہر کر رہے تھے۔پانچ اگست کو صوبہ خیبرپختونخوا کے انسداد دہشت گردی کے ادارے سی ٹی ڈی نے ان پر ممکنہ حملے کے حوالے سے ایک تھریٹ الرٹ بھی جاری کیا تاہم ارشد شریف کے قتل ہو جانے کے بعد وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا یہ تھریٹ الرٹ درست نہیں تھا اور سی ٹی ڈی نے پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر اعلٰی کے کہنے پر جاری کیا تھا۔دس تاریخ کو ارشد شریف پشاور ایئر پورٹ سے دبئی چلے گئے۔ارشد شریف کے پاکستان میں کولیگز کے مطابق 19 اگست کو ارشد شریف نے انہیں فون پر بتایا کہ دبئی میں وہاں حکام نے انہیں حکومت پاکستان کے دباﺅ کی وجہ سے یو اے ای چھوڑنے کیلیے کہا۔فیکٹ فوکس کے پاس موجود ایف آئی اے کے ریکارڈ کے مطابق 19 اگست کو رات 9 بجے خرم احمد کراچی سے براستہ دبئی کینیا کیلیے روانہ ہو گئے۔خرم احمد اور ارشد شریف دونوں 20 اگست کو نیروبی پہنچے۔خرم احمد 3 اکتوبر کو 4 دن کیلیے کراچی آئے اور 7 اکتوبر کو واپس نیروبی چلے گئے۔23 اکتوبر کی رات 10 بجے جب کینیا کی پولیس نے ارشد شریف پر گولیاں چلائیں تو اس وقت خرم احمد ان کی گاڑی چلا رہے تھے۔کینیا کی پولیس کے مطابق انہوں نے ایک ناکے پر اس گاڑی کو روکنے کی کوشش کی اور نہ رکنے پر گولیاں چلائیں۔کینیا کی پولیس کے اس موقف پر بھی شک و شبہات پائے جاتے ہیں اور اس بارے میں تحقیقات جاری ہیں۔ارشد شریف کے کچھ کولیگز نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ارشد کے ادارے اے آر وائی کی کوشش تھی کہ کسی طرح ان کو برطانیہ کا ویزا مل جائے مگر یہ کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں۔کینیا میں 20 اگست سے 23 اکتوبر تک قیام کے دوران ارشد شریف واپس یو اے ای ہی جانا چاہتے تھے اور انہوں نے اس حوالے ویزا لینے کے لیے بھی کوششیں کیں۔انہی کولیگز کے مطابق ان کی ایسی 4 کوششیں ناکام ہوئیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں