تحریر:بیرسٹر امجد ملک

کہو کہ اے اللہ (اے) بادشاہی کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی بخشے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور جس کو
چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے اور بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے (العمران:26)
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر شاہ نے باضابطہ طور پر پاک فوج کی کمان سنبھال لی ہے۔ مبارکباد بحرالحال ان کا حق ہے۔انکے سامنے بہت سے چیلنجز ہیں۔فوج کو سیاست سے پاک رکھنا، معاشی انحطاط میں ادارہ جاتی حصہ اور احتساب اور شہید کو غازی سے ممتاز کرنے کے لیے جدوجہد درکار ہوگی۔ جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف پہلی آفیشل تصویر جاری ہوئی تو احساس ہوا کہ ان پلوں کے نیچے سے کتنا پانی بہہ چکا ہے۔ اللہ پاک ملک پاکستان کو کامیاب کرنے میں انکی مدد کریں ۔آمین ۔
نئے آرمی چیف تعینات ہونے والےجنرل عاصم منیرسید سرور منیر شاہ کے صاحبزادے ہیں۔ سید عاصم منیر شاہ ڈھیری حسن آباد راولپنڈی کینٹ کے رہائشی تھے۔ لیکِن اب یہ فیملی اپنا گھر چھوڑ کر یہاں سے شفٹ ہو گئی ہے۔ ماضی میں اِن کا گھر ڈھیری حسن آباد راولپنڈی میں کنٹونمنٹ بورڈ ڈسپینسری کے سامنے والی گلی میں داخل ہوتے ہوئے بائیں جانب واقع تھا۔ عاصم منیر کے والد سید سرور منیر شاہ صاحب مرحوم اُستاد تھے اور ایف جی ٹیکنیکل ہائی اسکول لالکرتی، راولپنڈی کے پرنسپل تھے۔ جنرل عاصم منیر کا آرمی چیف بننا ڈھیری حسن آباد کے باسیوں لئے قابلِ فخر بات ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ ماضی کے مشہور بیوروکریٹ فواد حسن فواد، ماضی کے مشہور صحافی اور موجودہ سیاستدان سینیٹر عرفان صدیقی اور موجودہ صحافی اور اینکر پرسن سید طلعت حسین کا تعلق بھی ڈھیری حسن آباد سے ہے۔جنرل عاصم منیر، آرمی چیف بننے سے پہلے کوارٹر ماسٹر جنرل جی ایچ کیو تھے۔ جنرل عاصم منیر، ماضی میں کور کمانڈر گوجرانوالہ، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم آئی اور ایف سی این اے کے کمانڈر کے اہم ترین عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ اس کے ساتھ جنرل عاصم منیر حافظ قرآن بھی ہیں۔ عاصم منیر صاحب جب مدینہ شریف میں بھی بطور کرنل اہم ذمہ داریاں سر انجام دے چکے ہیں جنرل عاصم منیر نے آفیسرز ٹریننگ اسکول(او ٹی ایس) منگلا سے پاک آرمی میں شمولیت اختیار کی۔ جنرل عاصم منیر آرمی چیف بننے والے پاکستان آرمی کے دوسرے آرمی چیف ہوں گے جو او ٹی ایس سے فارغ التحصیل ہو کر آئے اور آرمی چیف بنے۔ اس سے پہلے جنرل ضیاءالحق او ٹی ایس سے پاک فوج میں شامل ہوئے تھے جو بعد میں آرمی چیف بنے تھے۔جنرل عاصم منیر 17واں او ٹی ایس کورس منگلا سے پاس آؤٹ ہوئے تھے۔ جنرل عاصم منیر فوج کے موسٹ سینئر جنرلز کی لسٹ میں آرمی چیف کی تعیناتی کے لیئے سب سے سینئر موسٹ جنرل تھے۔جنرل عاصم منیر کے والد مرحوم نے جنرل عاصم منیر کو پہلے حفظ کرایا اور بعد میں سکول داخل کرایا گیا آج مدرسہ کے ایک حافظ قرآن نے پاک فوج کی کمانڈ سنبھال لی ہے ماشااللّہ یہ بحیثیت مسلمان ایک قابل فخر بات ہے۔
آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے ناموں کی تقرری کا آخری وقت تک کسی کو علم نہیں تھا۔ آخری دنوں میں وزیراعظم شہباز شریف صاحب فراش تھے اور نواز شریف ملک سے باہر سیر پر جسکی وجہ سے لابنگ کا زور توڑنے میں بہت مدد ملی۔ اس دفعہ چیف سینئر موسٹ ہی چاہیے تھا لیکن چھٹے نمبر کی اینٹری نے فیصلہ سازی میں کافی مدد کی جسکے لئے سیاست کے پروفیسر محترم آصف علی زرداری کے معترف اور شکرگزار ہوناچاہیے۔تمام استعفے اس چھ نمبر کی لسٹ میں موجودگی کی وجہ سے ہی ممکن ہوئے۔ پچھلے چند ہفتوں سے اہم عسکری عہدوں کی تقرری بارے میں کچھ لوگوں نےطوفان بدتمیزی برپا کر رکھا تھا لیکن ٹاپ سیاسی لیڈرشپ کو بحرالحال اسکا علم تھا اور دونوں اطراف نے اپنے پتے مضبوطی سے تھامے رکھے اور اچھی طرح کھیلے۔ جنرل باجوہ چھ سال کے دور حکومت کے بعد تھک چکے تھے لیکن کہنے کے باوجود دل بھی چاہ رہا تھا کہ کچھ دیر اور ۔ مارشل لگانے کا جواز اور ہمت نہ تھی۔ پچھلے چند ماہ کی غیر مقبولیت اور تحریک انصاف کی دشنام طرازی، اور غداری کے القابات اور انکے اپنے بچے جمورے عمران خان کی بے اعتنائی نے انہیں بھگو کر رکھ دیا تھا۔ مجھے ایسے میں ایوب خان کے آخری ایام یاد آگئے جنہیں چند ٹکوں کی چینی کی گراں قدری پر کتیاں کتیاں ہوکر گھر لوٹنا پڑا۔ فرق صرف نواز شریف کی گوجرانوالہ میں تقریر تھی جس نے تن من دھن سے سیاست میں لتھڑی فوج کو ایک دم آئینے کے سامنے لا کھڑا کیا- اور وہ احتساب جنرل عاصم منیر کی چیف تعیناتی پر اختتام پزیر ہوا۔فوج سیاست سے بے دخل ہوگی یہ تو وقت بتائے گالیکن آنے والے کل کے اشارے ہمیں جانے والے کل میں ہی ملیں گے۔ایسے میں سینئر موسٹ جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تقرری سے کسی کا حق نہیں مارا گیا اور صدر مملکت نےاہم عسکری عہدوں کی تقرری پر دستخط کر کے درست فیصلہ کیااور ملک ایک بڑے بحران سے بچ گیا۔ لگتا ہے اس بحران کو ٹالنے میں سیاسی اور عسکری قیادت ، بیک ڈور مذاکرات اور کچھ لو اور کچھ دو کا بڑا عمل دخل ہوگا جسکا علم ہمیں وقت گزرنے کیساتھ ہو لیکن چیف کی تعیناتی پر قوم کا رد عمل ، خوشی کا اظہار اور حکومت اور حزب اختلاف کی مبارکبادوں کا سلسلہ آنے والے کل کی نوید سنا رہا ہے۔ جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کیساتھ ہی یوتھیوں نے طنز و تشنیع کے تیر چلانا شروع کر دیئے ہیں اور یوم نجات بھی منایا ہے۔ عمران خان جس کام کوگناہ کبیرہ قرار دیں لمحہ وجود میں وہی کام کر بھی رہے ہوتے ہیں۔گھڑی چوری تو معمولی سا وقوعہ ہے،ملکی سلامتی جوتے کی نوک پر اور شہزادوں کے جہاز میں بیٹھ کر انکی برائی کوئی خاندانی تو نہیں کرسکتا ہے ۔کبھی باپ کا درجہ اور کبھی اسکی ریٹائرمنٹ پر یوم نجات، خدا کہ پناہ۔ مجال ہے کہ عمران خان کے فین فالورز کے کان پہ جوں بھی رینگے کہ کل تک اسے تاحیات توسیع دے رہے تھے اور آج جنرل باجوہ کا نام ایک بد روح بن کر تحریک انصاف کو ڈرا رہا ہے۔ انکا چائینہ ماڈل چی گویرا احتجاج پنڈی کی سڑکوں پر رلتا ہوا اختتام پزیر بھی ہوا اور پیسہ بھی ہضم ہوچکا ہے۔اب ٹوئٹر پر احتجاج اور مہاتما کی پٹیشن کی کال کا انتظار کریں۔ الیکشن کیلئے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو محنت درکار ہوگی۔ انکے پاس اتنا وقت نہیں۔ سیاسی مقبولیت کا گراف ذاتی میراث نہیں۔ پی ڈی ایم حتی الوسع کوشش کرے گی اور ایک دن بھی جنرل انتخاب کی تاریخ سے پیچھے نہیں ہٹے گی کیونکہ نواز شریف سیاسی قیمت ارزاں داموں ادا کرچکے ہیں اور ابھی تک ملک سے باہر ہیں ۔ وزیر داخلہ نے دبے لفظوں اشارہ دیا ہے کہ بے جا ضد نہ کریں، الیکشن کی تاریخ چاہتے ہیں تو سیاست دان بن کر سیاست دانوں کے ساتھ بیٹھ کر ڈائیلاگ کریں، فیصلے تبدیل بھی ہوتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ بطورِ ادارہ اپنے آئینی رول سے پیچھے اور نا باہر جائے گی۔ امید نہ رکھیں، واپس آکر پارلیمنٹ کا حصہ بنیں؛ سیاسی جمہوری عمل کو آگے بڑھنے دیں۔
اب جب تک عمران خان سر نیچا کرکے امن کی چھڑی آگے نہیں بڑھائیں گے تو بات چیت کا آغاز نہیں ہوگا۔اگر بات چیت نہیں ہوگی تو نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔ آنے والے دنوں میں وزیراعظم ، صدر پاکستان، آصف علی زرداری، سینیٹر اسحق ڈار اور پرویز خٹک کا کردار دونوں طرف رسائی کی صلاحیت اور تجربہ کی وجہ سے اہم ہوگا۔
باجوہ صاحب کی آتما تو رول ہی دی ہے اب باقی محسنان عمران خان کی باری ہے وہ انہیں چن چن کر اپنی گالم گلوچ بریگیڈ کے زریعے تنقید کا نشانہ بنائیں گے۔حضرت علی رضی اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ جس پر احسان کرو اسکے شر سے ڈرو۔ بالکل حق ہے۔ باتیں دس برس کی سامان پل بھر کا – بڑا بول نہیں بولنا چاہیے۔ جنرل باجوہ کے چھ سال کسی بھی جمہوری دورمیں کسی بھی آرمی چیف کاتاریک ترین دوررہا۔ ملک کےمفادمیں یہی ہوگاکہ آئندہ فوج کی سیاست میں اسطرح کی تجربہ اور پیوند کاری اور مداخلت کی غلطیاں نہ دہرائی جائیں، سیاست میں مداخلت نہ ہو،علی وزیر آزاد ہوں،گلالئی اسماعیل کےوالدین سےزیادتی ختم ہو،مدثرنارو اور دیگر گمشدہ افراد بازیاب ہوں اور سپہ سالار آئین کی کتاب سامنے رکھ کر تمام افراد طبقوں اور معاشرے سے بات کریں اور اپنی لیڈرشپ کی آواز پر دشمن سے نبرد آزماء ہوں۔ جولائی 2018 میں جنرل باجوہ کو تمغہ جمہوریت دینے کا سوچنے والے جب 2022 میں یوم نجات منائیں تو اچنبھے والی کیا بات ہے بھائی “میرا جسم میری مرضی” کے مصداق وہاں کچھ بھی ممکن ہے۔
عمران خان نے کچھ دیر سوچ کر سپہ سالار پاکستان کو مبارکباد دی ہے اور ساتھ اس دودھ میں مینگنیں بھی ڈال دی ہیں اور جنرل جاجوہ سرکار کا ڈالا گند اپنے سر لینے کی استدعا درخواست یس دھمکی دی ہے اور ساتھ قائد اعظم محمد علی جناح کا فرمان بھی کہ فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ کہنا صرف یہی تھا کہ جب آئین قانون/انصاف کی بالادستی کی بات وزیراعظم نواز شریف نے کی تو عمران خان بھاگم بھاگ غداریوں کے سرٹیفکیٹ بانٹنا شروع ہوگئے اور بغاوت کے پرچے درج کروارہے تھے۔جنرل الیکشن انکو سیاستدانوں سے بات چیت سے ملنے ہیں ۔معافی اللہ سے یا قوم سے جنکی اولاد بگاڑی ہے اور معاشرتی اخلاق کا جنازہ نکال دیا ہے ۔جن دگردوں حالات میں پاکستان ہے اس میں موصوف کا میجر ہاتھ ہے- اب تو لوگ ٹھٹھے لے رہے ہیں کہ نواز شریف نے چھٹا آرمی چیف لگا دیا، اور عمران خان ہے کہ ابھی تک وزیر آباد کا ایس ایچ او لگوانے کی کوشش کر رہا۔ عمران خان کا جنرل باجوہ سے گلہ ہی رہا کہ ایسا کیا ہوا کہ برسوں کے یارانے گئے اور چور ہم سے بہتر ہوگئے۔ سوال یہ بھی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سو کالڈ چوروں کا ساتھ نہ دے تو پھر کس کا ساتھ دے؟ اُن نااہلوں کا جنہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد قوم سے ایک کروڑ نوکریوں کا اور 50 لاکھ گھروں کا وعدہ کیا تھا؟ جنہوں نے گورنر ہاؤس جیسی سرکاری عمارتوں پر یونیورسٹیاں بنانی تھیں؟ لیکن پراجیکٹ عمران گھڑی چوری کے قصیدوں پر اختتام پزیر ہوا۔ مرحوم صحافی ارشد شریف کی شہادت کو لیکر جو سیاسی ہنگام بپا کیا ہے خدا کی پناہ۔ اللہ پاک ارشد شریف کو انصاف دیں۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ لوگ انصاف کے عمل پر یقین رکھ سکیں اور تفتیشی صحافت جیسے مشکل کام کو انصاف نہ ملنے کی امید پر بالکل چھوڑ نہ دیں۔پاکستان میں ویسے بھی صحافی زیر عتاب رہتے ہیں ۔ حامد میر تو گولیاں پیٹ کے اندر سنبھالے بھاگ دوڑ رہے ہیں ۔ ابصار عالم ، مطیع اللہ جان اور دیکر صحافی بھائیوں کا معاشی معاشرتی اور پیشہ ورانہ استحصال ابھی کل کی بات ہے۔ ریاست پالستان کو کینیا میں ہونے والے اس جرم کی تہہ تک پہنچنا چاہیے اور عوام کے سامنے لانا چاہیے۔ ریاست کا مطلب اس میں سب کا فرض ہے۔
زیادہ تر حالیہ فوجی سربراہوں کا تقرر نواز شریف صاحب نے کیا ہے۔ اگر ہم نے غیر سیاسی ہونا ہے تو 1973 کے تحت معمولات سیاسیات کو اسکے دھارے میں لانا ہوگا۔اسے حرف بہ حرف قبول کرنا ہوگا ورنہ ہمیں ایک اور تباہی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔میں کبھی بھی سپاہ کے خلاف نہیں ہوں مگر تاریخ اور تجربہ تلخ ہے۔ ہندوستان ہماری لیگ سے بہت دور نکل چکا ہے۔ ہم اس ان دیکھے خوف کے زریعے اپنے وسائل سے اپنی عوام کو کب تک محروم رکھیں گے۔ اگر ہم تمام علاقائی ریاستوں کے ساتھ انڈیکس چیک کریں۔ بنگلہ دیش ہم سے بہت آگے نکل گیا ہے کیا انکے مسائل نہیں ہیں ، کیا انکی فوج نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے دفاع کو آئینی شکل دینے کے لیے ہندوستانی ماڈل کی پیروی کی۔ ہم ابھی تک مخمصے میں ہیں۔ آئین کی قابل عملیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔سابق حکومت کے سربراہ کی صدارتی نظام کی بابت گفتگو اسکے بارے میں اس کی قبولیت کے لئے آمادگی ، ماضی کے تجربے، کامیابی کے تناسب اور ممکنہ نقصانات کا کوئی مطالعہ کئے بغیر اس پر بلاوجہ بات کرنا اور بحث مباحثہ چھیڑنا نہ صرف وقت کا زیاں ہے بلکہ ریاست اور فیڈریشن کا نقصان ہے۔ہم لفظوں سے زیادہ کام سے دیکھی آن گے کہ نئے چیف سول سپریمیسی اور سیاست سے فوج کی مداخلت کو ختم کرنے کے مدعا کے اوپر کتنے سیریس ہیں ۔ میں توغیر سیاسی حیثیت پر یقین کروں گا جب میں دیکھوں گا کہ اب انسٹی ٹیوٹ جو سویلین کمانڈ اینڈ کنٹرول کی حدود سے باہر ہو گیا تھاکیا وہ کسی دوسرے ملک کی ریاست کی طرح معمول سے متعلق تعلقات میں واپس لایا جا سکتا ہے، ممکن ہے لیکن مشکل ہے ۔ قربانیاں دینی پڑیں گی۔ میں عام افسروں میں بوڑھے یا نوجوانوں میں وہ مرضی، ڈرائیو یا جذبہ نہیں دیکھ رہا جس سے میں یہ کہہ سکوں کہ تمام کی تمام فوج اس کام کیلئے تیار ہے ۔ آئین کی پاسداری کیلئے زہن سازی کرنا ہوگی۔ حلف دوبارہ پڑھنا پڑھانا اور سکھانا پڑے گا۔
آج سول سپرمیسی کا خواب جو قائد مسلم لیگ میاں محمد نوازشریف نے دیکھا وہ اب شرمندہ تعبیر ہونے جارہا ہے ، اسکے ساتھ اب پاکستان کو بھی مثبت سوچ کے حامل لوگوں کی ضرورت ہے ۔ جو پاکستان میں مثبت سوچ کو پھیلائیں اور ترقی کی راہ میں پاکستان کا ساتھ دیں۔ وقت نے ثابت کیا کہ سیزن لیڈرشپ ہی پاکستان کو ترقی کی راہ پر لا سکتی ہے، جو اتحاد و تنظیم سے دوسری جماعتوں کیساتھ ملکر بہتر پاکستان بنانے کی جدوجہد میں شریک ہوکر لیڈ کرسکتی ہے۔ قائد مسلم لیگ ن میاں نوازشریف ایک خوشحال مستقبل کی ضمانت ہیں ۔آئیں آپ سب ملکر اس پاکستان کو مضبوط اسلامی و جمہوری ریاست بنائیں ۔
آخر میں اتنا کہ احتیاط لازم ہے صرف بندہ بدلا ہے چھڑی وہی ہے۔ ان چھڑی والوں میں سے ایک نے بھٹو کو پھانسی لگایا ۔دوسرے نے لگانے والے کو جلاوطن کیا۔ تیسرا ڈبے اٹھا کر بھاگ گیا اور تین چار وزیراعظم رخصت کئے اور توسیع کےلئے گول پوسٹ قانون سمیت تبدیل کردیے۔ یہ ساعت بھی خوش نصیب وزیراعظموں کو نصیب ہوتی ہے کہ وہ چیف آف آرمی سٹاف کو الوداع کہہ سکیں۔ شہباز شریف خوش قسمت ہیں کہ انکو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اپنے صیاد کو رخصت کرسکیں ۔ پس مشتری ہو شیار باش۔
اب جبکہ سوشل میڈیا پر برپا انقلاب قابو میں آرہا ہے ، اہم تعیناتیوں کے بعد ادارے کو خود ہی غور و غوض کرنے کا موقعہ دینا چاہیے۔عدالتی اور فوجی افسران کے خلاف قیاس آرائی اور تنقید سے پرہیز کرنا چاہیے۔پاکستان اصل تبدیلی کی طرف گامزن ہے اسکی سیاسی عسکری و قانونی قیادت عوام کیساتھ ملکر فیصلے کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں۔
بیرسٹر امجد ملک ہیومن رائٹس کمیشن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پاکستان کے تاحیات اعزازی ممبر ہیں اور برطانیہ میں ایسوسی ایشن آف پاکستانی لائرز کے موجودہ چیئرمین ہیں۔