اسلام آباد(کرائم رپورٹر)سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر سینئر صحافی ارشد شریف کے بہیمانہ قتل کی ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے سوموٹو نوٹس کے بعد پولیس نے پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہید صحافی ارشد شریف کے قتل کی ایف آئی آر والدہ کی مدعیت کے بغیر ہی درج کرلی۔
اسلام آباد پولیس کے مطابق ’ارشد شریف کے قتل کی ایف آئی آر اسلام آباد کے تھانہ رمنا میں تین افراد کے خلاف درج کی گئی ہے۔ایف آئی آر میں تین افراد کو ملزم نامزد کیا گیا ہے جن میں وقار احمد، خرم احمد اور نجی ٹی وی چینل اے آر وائے کے اہم عہدے دار طارق وصی شامل ہیں۔ارشد شریف کے قتل کی ایف آئی آر تھانہ رمنا کے ایس ایچ او کی مدعیت میں درج کی گئی ہے۔ایف آئی آر کے مطابق ’ارشد شریف کی لاش کینیا سے پاکستان لائی گئی تھی اور بذریعہ میڈیکل بورڈ اس کا پوسٹ مارٹم کروایا گیا،میڈیکل بورڈ کی جانب سے چار نمونے لیبارٹری بھجوائے گئے تھے،ارشد شریف کی کینیا میں موت کی اعلٰی سطح پر انکوائری ہو رہی ہے۔پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ارشد شریف کی موت آتشیں اسلحے کا فائر لگنے سے ہوئی،انہیں کینیا میں قتل کیا گیا۔اس سے قبل سپریم کورٹ کے سوموٹو ایکشن اور مقدمہ درج کرنے کے لئے شام تک ڈیڈ لائن دینے کے بعد ارشد شریف کی والدہ نے کہا تھا کہ میرا بیٹا قتل ہوا ہے ایف آئی آر میں درج کراوں گی حکومت میری مدعیت میں بیٹے کے قتل کی ایف آئی آردرج کرے تاہم ان کے اعلان کے چند گھنٹوں بعد ہی اسلام آباد پولیس نے پھرتیاں دکھاتے ہوئے والدہ کی مدعیت کے بغیر ہی ایف آئی آر درج کرلی ہے۔ایف آئی آر تھانہ رمنا کے ایس ایچ او کی مدعیت میں درج کی گئی ہے جبکہ اس میں تین افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔
دوسری جانب ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق کا کہنا ہے کہ ’یہ ایف آئی آر ہم نے درج نہیں کروائی، تھانہ رمنا والے ہمارے رشتہ دار ہیں نہ ہی ارشد شریف کے لواحقین ،ان کے شوہر کے لواحقین ابھی زندہ ہیں،صرف میری ساس کی مدعیت میں ارشد شریف شہید کا مقدمہ درج ہوگا،ارشد شریف کے قتل کی ایف آئی آر پولیس کی مدعیت میں کیوں درج ہوئی؟ ارشد لاوارث نہیں ہے۔یاد رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے منگل کے روز وزارت داخلہ کو ارشد شریف کی ہلاکت کی ایف آئی آر درج کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔عدالت نے سیکریٹری داخلہ کو ہدایت کی تھی کہ آج ہی مقدمہ درج کیا جائے اور بدھ کے روز اسے سپریم کورٹ میں پیش کیا جائے۔