لاہور(خصوصی رپورٹ)معروف کالم نگار ،سینئر صحافی اور تجزیہ کار خذیفہ رحمان ملکی سیاست اور سیاسی جماعتوں خصوصا ن لیگ کی سیاسی حکمت عملی پر گہری نظر رکھتے ہیں،میاں نواز شریف ،میاں شہباز شریف ،مریم نواز سمیت مسلم لیگ ن کے دیگر قائدین کے کافی قریب سمجھے جانے والے خذیفہ رحمان روزنامہ ”جنگ“ میں لکھے جانے والے اپنے کالموں کے ذریعے اکثر و بیشتر مسلم لیگ ن کی قیادت کو ’مفید مشورے‘ بھی دیتے ہیں جبکہ حال ہی میں وہ مریم نواز شریف کے ہمراہ ایک ہی فلائٹ میں لندن گئے جہاں انہوں نے متعدد بار میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار سے تفصیلی ملاقاتیں کیں،خذیفہ رحمان کے مطابق ان ملاقاتوں کا مقصد مسلم لیگ ن کی سیاسی حکمت عملی کا باریک بینی سے جائزہ لینا تھا۔مورخہ 5دسمبر کو ملک کے کثیر الاشاعت روزنامہ ”جنگ“ میں اپنے لکھے جانے والے کالم میں خذیفہ رحمان نے سابق آرمی چیف جنرل(ر)قمر جاوید باجوہ،چیئر مین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے حوالے سے نہ صرف اہم انکشافات کئے ہیں بلکہ وفاق کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور وزیراعظم میاں شہباز شریف کو بھی آنے والے مشکل حالات کی منظر کشی کرتے ہوئے ایسا اہم مشورہ دیا ہے کہ اگر اس پر عمل کیا جائے تو ن لیگ کی گرداب میں ہچکچولے کھاتی ہوئی کشتی منجدھار سے با آسانی نکل سکتی ہے۔
خذیفہ رحمان اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ”عمران خان کو وزیر اعظم بنانا سابق آرمی چیف کی سب سے بڑی خواہش تھی۔جنرل (ر) باجوہ نے اس خواہش کی تکمیل کے لئے 2016سے 2022تک تحریک انصاف کا بھرپور ساتھ دیا۔مسلم لیگ ن کی حکومت کے لئے مشکلات کھڑی کرنا ہوں یا پھر سابق وزیر اعظم نواز شریف کو نا اہل کروانا ہو۔عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا گیا۔مجھے یاد ہے کہ 2016میں جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ صاحب کی بطور آرمی چیف تعیناتی سے چند ماہ قبل میں سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیواءمیں موجود تھا۔شہباز شریف صاحب کی حالیہ حکومت کے اہم ترین بیوروکریٹ اور میں جنیوا جھیل کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے۔پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے انتہائی قابل افسر کہنے لگے کہ آپکو کیا لگتا ہے کہ میاں نوازشریف آرمی چیف جنرل(ر) راحیل شریف کو ایکسٹینشن دیں گے،میرا جواب نہیں تھا۔ وہ کہنے لگے کہ آپکی معلومات کے مطابق نیا آرمی چیف کون ہو گا؟تو خاکسار نے جواب دیا کہ جنرل باجوہ کو میاں نوازشریف نیا آرمی چیف لگائیں گے۔چند ماہ بعد میاں نوازشریف نے جنرل باجوہ کو آرمی چیف تعینات کردیا تو مجھے ان دوست کی جنیواءسے کال آئی کہ جنرل راحیل شریف کی ایکسٹینشن کو لے کر جو ٹینشن بنی ہوئی تھی، اللّٰہ کے فضل سے اچھا فیصلہ ہوگیا ہے۔
میں نے انہیں جواب دیا کہ جو بھی ہو ملک کے لئے بہتر ہو لیکن جنرل باجوہ کا کسی بھی معاملے پر ردعمل جنرل راحیل شریف سے مختلف ہوگا اور پھر سب نے دیکھا کہ ڈان لیکس سے لے کر پانامہ کی سزاوں تک جو کچھ بھی ہوا ،سب تاریخ کا حصہ ہے۔اسی طرح لاہور جم خانہ میں خاکسار کو سردار نصراللہ خان دریشک مل گئے۔دریشک صاحب مجھ سے کہنے لگے کہ نیا آرمی چیف کون لگنے جارہا ہے۔ میں نے جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کا نام لیا تو دریشک صاحب کہنے لگے کہ یہ صاحب تو ہمارے پرانے دوست جنرل(ر) اعجاز امجد کے داماد ہیں۔مزید کہنے لگے کہ اعجاز امجد صاحب تو جی۔او۔سی لاہور بھی رہے ہیں۔یوں انہوں نے اعجاز امجد صاحب کو مبارکباد دینے کےلئے فون ملایا۔بہرحال یہ سب واقعات اب تاریخ کا حصہ ہیں۔
جنرل باجوہ صاحب کی تعیناتی سے لے کر ریٹائرمنٹ تک کے واقعات اس لئے یاد آگئے کہ آج صبح جب اخبارات پڑھنے کے لئے اٹھائے تو عمران خان کا بیان سامنے تھا کہ انہیں جنرل باجوہ نے دھوکہ دیا،انہوں نے جنرل باجوہ صاحب کو توسیع دے کر بہت بڑی غلطی کی تھی۔بہرحال جو چلا جائے اس پر تنقید کرنا مناسب نہیں ہوتا۔کاش جنرل باجوہ کے عہدے پر ہوتے ہوئے عمران خان صاحب یہ جرات کرتے اور یہ بیانات دیتے تو میں انہیں بہادر تصور کرتا مگر عمران خان کا انٹرویو آج سب کے لئے ایک سبق ہے کہ ”دھوکے کو اپنے گھر سے بڑا پیا ر ہوتا ہے،یہ گھوم پھر کر اپنے گھر ضرور آتا ہے“آج جو کچھ عمران خان اپنے ان دوستوں کے ساتھ کر رہے ہیں جنہوں نے انہیں نہ صرف وزیراعظم بنوایا بلکہ بطور وزیراعظم ساڑھے تین سال چلوایا بھی۔یہ دھوکے کا سبق ان سب کیلئے ہے کیونکہ جو دھوکہ میاں نوازشریف کو دیا گیا اور ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی۔تعیناتی سے قبل قانون کی حکمرانی اور سویلین بالادستی کی یقین دہانی کرائی گئی اور پھر عہدے پر براجمان ہونے کے بعد سب کچھ الٹ کیا گیا تو ہم سب کو یاد ہونا چاہئے کہ یہ مکافات عمل ہے۔
ذاتی طور پرمیں سمجھتا ہوں کہ جنرل باجوہ کے ہاتھ اٹھانے یا کسی بھی افسر کے ٹرانسفر ہونے سے عمران حکومت ختم نہیں ہوئی بلکہ عمران خان کو بدترین کارکردگی اور معیشت کی تباہی نے اقتدار سے بے دخل کروایا۔آج شہباز شریف حکومت کے لئے بھی معیشت ہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔اگر آئندہ چند ماہ میں شہباز صاحب نے معیشت کو ٹھیک ٹریک پر ڈالنے کے حوالے سے سخت فیصلے نہ کیے تو شاید اس حکومت کا انجام بھی عمران خان کی حکومت سے مختلف نہ ہو۔کرپشن عمران حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ رہا مگر بدقسمتی سے آج شہبازصاحب کی کابینہ بھی اسی ڈگر پر چل پڑی ہے۔کرپشن کی زیادہ شکایات ہمیشہ پیپلزپارٹی سے رہی ہیں مگر اس مرتبہ مسلم لیگ ن کے اپنے دو،تین وزراءاور خاص طور پرایک اتحادی جماعت کے حوالے سے بہت خوفناک شکایات سامنے آرہی ہیں۔سسکیاں لیتی ہوئی معیشت اور پھر وزارتوں میں کرپشن کی شکایات شہباز شریف حکومت کےلئے شرمندگی اور مشکلات کا باعث بنیں گی۔کیونکہ جس طرح عمران خان حکومت میں بزدارودیگر افراد کی کرپشن کی ذمہ داری عمران خان پر آتی ہے تو اپنی جماعت کے کسی بھی وزیر یا اتحادی جماعتوں کے وزراءکے کارناموں کا سامنا بھی شہباز شریف کو کرنا پڑے گا۔29نومبر کے بعد حکومت ایک نئے دور (Mode)میں داخل ہوچکی ہے۔معیشت اور گورننس کو بہتر کئے بغیر مسلم لیگ ن عوام میں جانے کے قابل نہیں رہے گی۔آئندہ انتخابات آپکی حالیہ کارکردگی پر ہی لڑا جانا ہے۔گورننس کو بہتر بنانے کے حوالے سے ہنگامی اقدامات کریں ، بیوروکریٹس کی چکنی چپڑی باتوں کے بجائے مخلص دوستوں کی رائے کو اہمیت دیں۔خودمختار اداروں میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کریں۔جب تک آپ یہ اقدامات نہیں کریں گے ،گورننس میں بہتری نہیں آئے گی، اتحادی جماعتوں کے وزراءسے بھی درخواست کریں کہ اگر عمران خان کا مقابلہ کرنا ہے تو وہ کام نہ کریں جو عمران اور ان کی کابینہ گزشتہ ساڑھے تین سال میں کرتی رہی ہے۔