اسلام آباد(وقائع نگار خصوصی)پاکستان تحریک انصاف کے جنرل سیکریٹری اسد عمر نے مطالبہ کیا ہے کہ اداروں کو وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کے بیان کا نوٹس لینا چاہیے جس میں وہ میڈیا پر بیٹھ کر کہہ رہے ہیں کہ ادارے مکمل طور پر سیاست کے اندر شریک ہیں اور فیصلہ کر رہے ہیں کہ کون آئے گا اور کون نہیں؟پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم)کی موجودہ مخلوط امپورٹڈ حکومت کھلم کھلا غیر آئینی فیصلے اور اقدامات کرنے پر اتر آئی ہے،یہ حکمران جمہوری اصولوں کو بے باکی اور بے شرمی کے ساتھ پامال کرنے پر اتر آئے ہیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ حکمران الیکشن سے بھاگنا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے جون کے مہینے میں ایک ترمیم کے ذریعے اسلام آباد کی یونین کونسلز کی تعداد بڑھائی تاکہ حلقہ بندیاں ہوں اور
الیکشن تاخیر کا شکار ہوں،اسلام ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا جس کے بعد مزید تاخیر توہین عدالت کے مترادف ہوگی، انہوں نے الیکشن سے ایک ہفتہ قبل پھر یونین کونسلز بڑھانے کا فیصلہ کیا تاکہ پولنگ کو مزید ملتوی کردیا جائے،یہ ہماری عدلیہ کا بھی امتحان ہے،قانون بنانا مقننہ کا کام ہے لیکن کوئی ایسی قانون سازی جو بد نیتی کی بنیاد پر ہو، اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی،یہ حکمران پاکستان کے عوام اور عمران خان سے خوفزہ ہیں،اس لیے وہ الیکشن سے فرار ہونے کی کوشش کرتے ہیں،چاہیے اس کے لیے انہیں آئین کو پامال ہی کیوں نہ کرنا پڑے،آ ج ان کو پتا چلا ہے کہ پنجاب حکومت اکثریت کھو چکی ہے؟پہلے تو وہ کہتے تھے کہ عمران خان نے صرف اعلان کیا ہے،وہ اسمبلیاں تحلیل نہیں کریں گے،پھر کہا پرویز الٰہی فیصلے پر عمل نہیں کریں گے،پھر اچانک ان کو یاد آیا کہ اس وزیر اعلیٰ کی تو اکثریت ہی نہیں ہے،گورنر نے اعتماد کے ووٹ کے لیے مضحکہ خیز اور عجیب باتیں کیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے جلسے کیے،ضمنی انتخابات پی ٹی آئی نے جیتے لیکن اگر آپ ان سب باتوں کو بھی ایک طرف کردیں اور صرف ان کا الیکشن سے بھاگنا دیکھیں،اس سے ایک بات نظر آتی ہے کہ ان لوگوں کو سمجھ آگئی ہے کہ عمران خان سے سیاسی مقابلہ نہیں کیا جاسکتا،پہلے مخالفین نے قانونی طریقے سے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو ٹیکنیکل ناک آوٹ کرنے کی کوشش کی،اس میں کھودا پہاڑ نکلا چوہا،ان کے تمام حربے ناکام ہوگئے،لاہور ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کا تمام ریکارڈ طلب کرکے اچھا فیصلہ کیا،پھر انہوں نے انہیں جسمانی طور پر ہدف بنانے کی کوشش کی،منصوبہ بندی کرکے انہیں قتل کرنے کی کوشش کی،وہ منصوبہ ناکام ہوگیا تو انہوں نے ان کی جعلی آڈیو چلانی شروع کردیں،ان کے جھوٹ پکڑے جانے سے عمران خان کی مقبولیت 30 فیصد سے 60 فیصد ہوگئی، مخالفین کے تمام حربے ناکام ہوگئے ہیں،عزت ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے، یہ جتنے حربے استعمال کرتے ہیں، عمران خان کی مقبولیت میں اتنا زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ پنجاب اور اسلام آباد میں الیکشن روکنے کے لیے بدنیتی پر مبنی اقدامات کیے جارہے ہیں،یہ نظام چل نہیں سکتا،معیشت تباہ ہے،مہنگائی کی شرح ملکی تاریخ کی بلند ترین ہے،بے روزگاری بڑھ رہی ہے،کسان پریشان ہے،تاجر برادری،کاروباری طبقہ پریشان ہے،اس حکومت سے معاملات سنبھالے نہیں جارہے،بیرونی مداخلت اور ضمیروں کی منڈیاں لگا کر رجیم چینج آپریشن کے تحت حکومت تبدیلی نے ملک کی جڑی کھوکھلی کرکے رکھ دی ہیں،خیبر پختونخوا میں امن عامہ کی صورتحال خراب ہے،کیا سرحد پار سے دہشت گردوں کی آمد کو روکنا صوبائی حکومت کا کام ہے،کیا اس کے وسائل صوبائی حکومت کے پاس ہوتے ہیں،کیا دہشت گردی صوبائی معاملہ ہے،گزشتہ 8 ماہ میں جس طرح سے ملک کو رجیم چینج آپریشن سے نقصان پہنچایا گیا ہے،ایسا نقصان کسی منصوبے کے تحت نہیں پہنچایا جاسکتا،اس تباہی سے نکلنے کا واحد حل صرف نئے صاف و شفاف الیکشن ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک کی بہتری کے لیے فوج،ملک کی حکومت کی مدد اور تعاون کے لیے اقدامات کرتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے،اس میں ہمیں کوئی اعتراض نہیں،سابق آرمی چیف قمر باجوہ نے کہا کہ وہ فروری میں غیر سیاسی ہوگئے لیکن میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ جب تک وہ جارہے تھے،اس وقت تک ہمیں تو غیر جانبداری نظر نہیں آئی،اب فوج کی نئی قیادت آئی ہے،اب دیکھیں کہ نیوٹریلٹی نظر آتی ہے یا نہیں؟ان مہینوں کے اندر تو ہمیں غیر جانبداری نظر نہیں آئی، 2018 میں بہت سی سیاسی جماعتوں کو اعتراضات تھے جن میں پی ٹی آئی بھی شامل تھی، آپ سندھ میں جاکر لوگوں سے،سیاستدانوں سے پوچھیں کہ انہیں کدھر جانے کے لیے فون کالز آرہی تھیں،وہ کونسا سیاست دان تھا جو پی ٹی آئی میں شمولت کے لیے آرہا تھا کہ راستے میں فون کال آگئی کہ آپ نے وہاں نہیں جانا،آپ الگ بیٹھیں،اس طرح کی شکایات صرف ایک طرف نہیں دونوں طرف تھیں۔
اسد عمر نے کہا کہ اداروں کو وزیر داخلہ کے بیان کا نوٹس لینا چاہیے،انہوں نے اداروں پر بہت بڑا الزام لگایا ہے،اس بیان کا اداروں کو جواب دینا چاہیے،ادارے کہہ رہے ہیں کہ وہ سیاست میں فریق نہیں بنیں گے جب کہ رانا ثنااللہ اداروں کو سیاست میں ملوث کر رہے ہیں،ملک کے وزیر داخلہ میڈیا پر بیٹھ کر کہہ رہے ہیں کہ ادارے مکمل طور پر سیاست کے اندر شریک ہو رہے ہیں اور وہ فیصلہ کر رہے ہیں کہ کون آئے گا اور کون نہیں آئے گا؟ہم تو بعد میں فیصلہ کریں گے کہ وہ نیوٹرل ہیں یا نہیں،رانا ثنااللہ نے اعلان کردیا کہ وہ نیوٹرل نہیں ہیں،میرے خیال میں اداروں کو اس بات کا نوٹس لینا چاہیے۔
ایک سوال کےجواب میں اسد عمر نے کہا کہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق)دو الگ الگ جماعتیں ہیں جن کا کئی معاملات پر اتفاق نہیں اور یہ ان میں سے ایک بات ہے جن پر ہمارا ان سے اتفاق نہیں ہے،سیاسی طور پر ہم اتحادی ہیں اور آئندہ بھی ہم اتحادی رہیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دن میں میٹنگ ہو یا رات میں میٹنگ ہو،اگر ڈی جی آئی ایس آئی یہ بتا دیں کہ ہم نے سوائے اس کے کوئی بات کی ہو کہ پاکستان کا الیکشن نیا ہونا چاہیے تو ہمیں بتا دیں اور کیا پاکستان کے اندر الیکشن کا مطالبہ کرانا غیر جمہوری چیز ہے،ہم ان سے کہتے تھے کہ یہ کون کہہ رہا ہے کہ عمران خان کو وزیر اعظم بنا دو، یہ کون کہہ رہا ہے کہ پی ٹی آئی کو الیکشن جتوا دو،ہم صرف جمہوریت کا مطالبہ کرتے ہیں،ڈی جی آئی ایس پی آر کی پوری پریس کانفرنس میں سب سے اہم بات یہی تھی کہ پاکستان کو 1971 کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے لیکن 1971 کا سبق کیا تھا؟ 1971 کا سبق یہ تھا کہ جب آپ طاقت کا استعمال کر کے،جبر سے پاکستان کے عوام کے فیصلوں کو مسترد کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ طاقت چلے اور عوام کا فیصلہ نہ چلے تو پھر ملک کی تباہی ہوتی ہے،یہ سبق اس قوم کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔نجم سیٹھی کی تعیناتی سے متعلق سوال پر اسد عمر نے کہا کہ دیکھیں کہ یہ تبدیلی کیسے وقت پر آرہی ہے جب کہ پاکستان ٹی 20 ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچا ہے،ایک طرف رمیز راجا ہے جس نے پاکستان کے لیے ٹیسٹ میچ کھیلے ہوئے ہیں،جو ٹیم 1992 کا ورلڈ کپ جیتی اس کا حصہ تھے،فائنل میں آخری کیچ انہوں نے پکڑا،ساری زندگی کرکٹ کھیلی،دوسری طرف وہ آدمی ہے جو ٹی وی پر تجزیے کرتا ہے،جس کی چڑیا ٹی وی پر جھوٹی جھوٹی خبریں لے کر آتی ہے تو جب آپ کو بورڈ کا سربراہ لگانا ہو تو آپ چڑیا والے کو ہی لگاو گے نا، اس کو کیوں لگاو گے جو ساری زندگی کرکٹ کھیلتا رہا ہے۔