اسلام آباد(کورٹ رپورٹر)اسلام آباد ہائیکورٹ نے بلدیاتی انتخابات سے متعلق انٹرا کورٹ اپیل کا فیصلہ جاری کرتے ہوئے اپیلیں قابل سماعت قرار دے دیں۔آج(سوموار کو ) ہونے والی سماعت میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے سنگل رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کیا تھا جو کچھ دیر بعد سنایا گیا۔
’پاکستان ٹائم‘کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں میں 31 دسمبر کو بلدیاتی انتخابات کرانے کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل بینچ کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل دو رکنی بینچ نے وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کی۔ دوران سماعت الیکشن کمیشن کی جانب سے ایڈووکیٹ میاں عبد الروف عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ فیڈریشن کہاں ہے؟فیڈریشن کو بھی یاددہانی کروا دیں۔اس دوران ڈی جی لا الیکشن کمیشن روسٹرم پر آگئے،چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ڈی جی صاحب پہلے آپ کے وکیل کو سن لیں،پھر آپ کو بھی س لیں گے۔وفاقی حکومت کی جانب سے قانونی ٹیم عدالت میں پیش ہوئی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد عدالت پہنچے،ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد محمود کیانی بھی عدالت میں پیش ہوئے۔وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ سے یونین کونسلز کی تعداد بڑھانے کا بل منظور ہوا ہے۔چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ بل تو ابھی تک ایکٹ بنا ہی نہیں ہے، کیا الیکشن کمیشن کے فیصلے سے قبل یہ بل منظور ہو چکا تھا،سوال یہ ہے کہ ایک بل کی بنیاد پر تو الیکشن ملتوی نہیں ہو سکتا، ابھی تو قانون بنا ہی نہیں۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ دونوں ایوانوں سے بل منظور ہو چکا تھا،ممکنات تھیں کہ میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخابات کس قانون کے تحت ہوں گے۔ 19دسمبر کا نوٹی فکیشن چیلنج نہیں کیا گیا،اب والی پٹیشن میں بھی اسے چیلنج نہیں کیا گیا۔چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پٹیشن میں 19 دسمبر کا نوٹی فکیشن چیلینج کیا گیا ہے،جو آئینی سوالات اس میں شامل ہیں اس جانب وہ آرہے ہیں نہ آپ آرہے ہیں،معذرت کے ساتھ آپ دونوں اپنے ساتھ ظلم کر رہے ہیں،کوئی ایک چیز بھی عدالت کے سامنے نہیں لائے،اسی لیے کہہ رہا ہوں تیاری کر لیں،کل پرسوں کے لیے رکھ لیتے ہیں،پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس میں جسٹس محسن اختر کیانی نے تیس دن میں سماعت مکمل کرنے کا کہا تھا،دو رکنی بینچ نے آبزرویشن دی ہوئی ہے کہ باڈی کو ہدایت نہیں دی جاسکتی،الیکشن کمیشن کو ہائی کورٹ ہدایات جاری نہیں کرسکتی،پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس میں یہ اصول طے ہوا تھا،معذرت کے ساتھ جس چیز کے لیے الیکشن کمیشن کو کیس بھیجا گیا تھا اس کے بجائے بل پر چلے گئے،ہر ایک نے اپنا کام قانون کے دائرے میں رہ کر کرنا ہے،ہم اس معاملے پر ابھی غور کر رہے ہیں کہ آئینی باڈیز کو ہدایات دے سکتے ہیں یا نہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل کی جانب سے استدعا کی گئی کہ عدالت سنگل بینچ کا فیصلہ معطل کر دے۔بعد ازاں عدالت نے سنگل بینچ کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔
واضح رہے کہ 31 دسمبر کو وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن نے اسلام آباد میں اسی روز بلدیاتی انتخابات کرانے کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیلیں دائر کی تھیں۔وفاقی حکومت کی جانب سے دائر اپیل میں ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ سنگل رکنی بینچ نے معاملے کے حقائق اور قانونی پہلووں کو مدنظر نہ رکھتے ہوئے فیصلہ سنایا،الیکشن کمیشن کی آئینی حیثیت کو بھی ملحوظ خاطر نہ رکھا گیا،الیکشن کمیشن ایگزیکٹو نہیں بلکہ ایک آئینی ادارہ ہے۔درخواست میں کہا گیا کہ سنگل رکنی بینچ نے حکومت کو اپنا جواب جمع کرانے کے لیے مناسب وقت نہیں دیا،فیصلہ قانون اور حقائق کی غلط تشریح پر مبنی ہے اور برقرار رکھنے کے قابل نہیں ہے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے انٹراکورٹ اپیل پر اسی روز سماعت کی استدعا کرتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ،موجودہ صورتحال میں آج انتخابات کا انعقاد ممکن ہی نہیں تھا لہٰذا ایک رکنی بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔