شدید سردی میں سیلاب متاثرین کی مشکلات بڑھ گئیں


کراچی(وقائع نگار)جولائی اور اگست میں پیدا ہونے والی سیلابی صورتِ حال کو چھ ماہ گزر چکے ہیں، اس کے باوجود متاثرین مناسب پناہ گاہ کے بغیر کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں۔
ایسے میں جمعرات سے پورے سندھ کو اپنی لپیٹ میں لینے والی سردی کی شدید لہر ہزاروں سیلاب زدگان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔سندھ کے پڑوسی صوبے بلوچستان میں میں ہزاروں افراد کو ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا ہے، اور منگل کے روز ایک چھوٹا بچہ شدید موسم کی وجہ سے اپنی جان بھی گنوا بیٹھا ہے۔پاکستان کے محکمہ موسمیات (پی ایم ڈی) نے رواں ہفتے ایک الرٹ جاری کیا، جس میں خبردار کیا گیا ہے کہ 12 سے 17 جنوری کے درمیان صوبہ سندھ میں سردی کی ایک لہر آئے گی، جس کی وجہ سائبیرین ہوائیں ہیں پورے خطے کو متاثر کر رہی ہیں۔سیلاب نے سندھ اور بلوچستان دونوں کو متاثر کیا ہے، لیکن متاثرین کی تعداد بلوچستان کے مقابلے سندھ میں زیادہ ہے۔ تاہم، دونوں ہی صوبوں میں زندہ بچ جانے والے ہزاروں متاثرین اب بھی امداد کے منتظر ہیں۔بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں شدید سردی کی لہر کے باعث تین سالہ بچہ بھی جاں بحق ہوگیا ہے۔ سوشل میڈیا پوسٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ بچہ لسبیلہ کے علاقے وِندر میں آنے والے سیلاب سے بچ جانے والے لوگوں میں سے ایک تھا۔تاہم، بلوچستان کے علاقے حب سے آج نیوز کے نمائندے دیدار علی نے بتایا کہ بچے کی موت گھر کی چھت گرنے کے بعد خاندان کے سردی میں کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہونے کے باعث ہوئی۔دیدار نے بتایا کہ دو دن پہلے شدید بارش میں ان کے مکان کی چھت گر گئی تھی۔وندر جولائی 2022 میں سیلاب کی زد میں آ گیا تھا۔بچے کی موت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس خطے میں سخت موسم بے شمار لوگوں کے لیے کتنا جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔پی ڈی ایم اے کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ میں کم از کم 89,157 سیلاب متاثرین اب بھی بے گھر ہیں۔سیلاب نے چھ ماہ قبل پاکستان کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈبو دیا تھا اور 30 ملین سے زیادہ افراد متاثر ہوئے تھے، سندھ سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے جسے بحالی کے حوالے سے زبردست چیلنجز کا سامنا ہے۔گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کے رابطہ برائے انسانی امور کے دفتر (OCHA) کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ صرف سندھ میں 240,000 بے گھر افراد موجود ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں