سیاسی پارہ اور پاکستان کا مستقبل

تحریر:کامران اشرف

وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے ملک میں بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی کو کم کرنے اور ملکی مسائل کے حل کے لئے کل جماعتی کانفرنس 7 فروری کو اسلام آباد میں بلانے کے لئے عمران خان سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت نامہ ارسال کر دئیے گئے ہیں۔وزیر اعظم ہاوس سے جاری اعلامیہ کے مطابق چیئرمین تحریک انصاف کو بھی اے پی سی میں بلایا گیا ہے۔ایاز صادق نے اسد قیصر اور پرویز خٹک کو آل پارٹیز کانفرنس میں عمران خان کی شرکت کی باضابطہ دعوت دی۔
دوسری طرف گورنر ہاوس خیبر پختون خوا میں اپیکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے عمران خان کے حوالے سے کہا کہ میں نے اس کو بھی مدعو کیا ہے جو مجھ سے ہاتھ بھی ملانا پسند نہیں کرتا۔شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں ذاتی پسند اور نا پسند سے بالا ہو کر جدوجہد کرنی ہوگی۔دیگر سیاسی جماعتیں پہلے سے حکومت میں موجود ہیں جبکہ واحد حزب اختلاف جماعت اسلامی ہے۔جن کو دعوت تو مل چکی ہے مگر سراج الحق کی شرکت کے حوالے سے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔
دوسری طرف تحریک انصاف نے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے لاہور میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے۔
عمران خان کا سیاسی بیانیہ چاہے جتنا بھی مقبول ہو مگر سیاسی مفاہمت کے بغیر اگلے انتخابات کا لائحہ عمل تشکیل نہیں دیا جاسکتا،دوسری طرف صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد اگر 90 دنوں میں انتخابات نہیں ہوتے تو ملک میں آئینی بحران پیدا ہوگا جس کا نقصان بہرحال تحریک انصاف کو ہو گا۔
گزشتہ دور حکومت میں عمران خان نے کسی بھی معاملے پر مشاورت نہیں کی جس سے گزشتہ حکومت اور حزب اختلاف میں کوئی رابطہ نہیں ہوا اس کامعاشی طور پر نقصان پاکستان کو ہورہا ہے۔دوسری طرف کشمیر اور دیگر اہم قومی معاملات پر سیاسی جماعتوں میں باہمی رابطے نہ ہونے سے ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔بطور ریاست پاکستان کا موقف کمزور ہوا۔آئی ایم ایف کے حوالے سے پہلے بیان بازی کی گئی اور جب وہی اپوزیشن حکومت میں آئی تو سب سے پہلے آئی ایم ایف کے پیکیج کے لئے دوڑیں لگیں۔
ماضی کی تلخیاں ایک طرف مگر پاکستان کو آئینی اور معاشی بحران سے نکالنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا۔انتخابی اصلاحات اور مردم شماری کے بعدشفاف اور غیر جانبدار انتخابات کی راہ فوری ہموار کی جائے۔ تمام سیاسی جماعتیں شفاف انتخابات کے انعقاد پرزور دیں اوراپنے یا مخالف کے حق میں کسی بھی طرح کی بیرونی مداخلت کو برداشت نہ کریں۔ اصولی موقف اور منشور کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیں۔ بھرپور انتخابی مہم چلائیں۔انتخابات کے نتائج کو تسلیم کروانے کے لئے الیکشن کمیشن کو انتخابات کی شفافیت اور غیر جانبدار ی کو یقینی بنانااور اپنا قبلہ سیدھا کرنا ہوگا۔
صوبائی اسمبلیوں میں انتخابات کے فوری بعد بلدیاتی انتخابات کا قومی پلان بنایا جائے تاکہ علاقائی مسائل کے حل کے لئے موثر نظام موجود ہو۔ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ آئندہ انتخابات کے نتائج کو تمام سیاسی جماعتیں تسلیم کریں۔ اگر یہ انتخابات شفاف نہ ہوئے تو ملک ایسے بحران کی طرف جائے گا جس کے بعد اس نظام کو لپیٹ دیا جائے گا۔
اداروں کی جانب سے غیر سیاسی رہنے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔کسی بھی سیاسی جماعت کے حق میں اپنی حمایت یا مخالف کو ختم کردیا جائے تو پاکستان میں جمہوریت کے پودے کوپھلنے پھولنے اور تن آور درخت بننے میں دیر نہیں لگے گی۔ ملکی استحکام اورآنے والی نسلوں کے تحفظ کےلئے باعتماد اور بااختیار الیکشن کمیشن از حد ضروری ہے جو سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوری روئے کو پروان چڑھائےاور ملک میں اشرافیہ کی حکومت کی بجائے عوام کے ووٹ سے حکومتیں قائم ہوں۔
سیاسی شعور کو پروان چڑھانے کے لیے پرامن شفاف انتخابات وقت کی اہم ترین ضرورت ہےجس کے لئے ن لیگ پیپلز پارٹی، تحریک انصاف ، جمعیت علمائ اسلام سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو جماعت اسلامی سے جمہوری اقدار سیکھنی چاہئیں۔ موروثی رویوں کی بجائے جمہوری رویوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی پر چڑھایا جاسکے ورنہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا نظام ہی رائج رہے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں